Friday, May 29, 2020

کرونا وائرس –واحد علاج


کرونا وائرس –واحد علاج

:

(پروفیسر عمران حفیظ ) 

میری  پوسٹ لکھنے کے وقت تک کرونا وائرس دنیا کے 186ممالک میں پھیل چکا ہے 

یہ بات ہر ایک کو سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت کروناوائرس ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ کرونا وائرس کا سائز 400/500مائیکروقطر ہے۔یہ ہوا مین نہیں پھیلتا،کسی چیز پہ رہنے سے اس وائرس کی زندگی 12-9سے گھنٹے تک ہوتی ہے اگر اس کو دھو نا دیا جائےتو فوراً ختم ہوجاتا ہے۔کرونا وائرس  دراصل ہمارا روٹین کا لائف اسٹائل ہے۔زندگی کے یہ دن غیر معمولی ہیں لہذا اس وباء کے پھوٹنے کے بعد اپنی زندگی کو پہلے کی طرح معلوم کے مطابق مت گزاریں ۔جب یہ وباء نہیں پھوٹی تھی تو تب ہمارا لائف اسٹائل لاپرواہی والا تھا  اور کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا لیکن اب آپ سب دوستوں سے گذارش ہے کہ صرف چند دنوں کے لئے اپنا لائف اسٹائل ، روز مرہ کے معمولات ضرور بدل لیں اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے دی گئی ہدایات پہ لازمی عمل کریں۔ وباء اور امراض  کی نشاندہی کرنا ،اس بارے حتمی رائے اور ہدایات دینا  صرف  ماہرطبیب اور ماہر ڈاکٹروں کا کام ہے سطحی خطیبوں کی اس بارے رائے کو اہمیت مت دیں اپنا اور اپنے پیاروں اور  گھر والوں کا سوچیں اور اپنا لائف اسٹائل صرف چند دنوں کے لئے ضرور بدل لیں۔اچھی بُری تقدیر پر ایمان لانا 

ہم سب مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے لیکن کیا تقدیر کے ساتھ ایمان رکھتے ہوئے 

تدبیر کرناگناہ ہے؟ ہر گز نہیں تقدید اور تدبیر دونوں سنت ہیں۔ لہذا تدبیر اپنائیں اور 

اپنا لائف اسٹائل اس وبائی ایام میں بدل لیں ۔کرنا کیا ہے
 ٭  خاص وقفے کے بعد بار باراور کوئی کام کرنے کے بعد اپنے ہاتھ کم از کم 20 سیکنڈ تک  صابن سے ہاتھ دھویں ۔

٭کھانسی اور چھنیک آنے کی صورت میں منہ ناک کو ٹشو سے فوراً ڈھانپیں اور اس ٹشو کو ضائع کر دیں ۔

٭اپنے منہ، آنکھوں،ناک اور چہرے کو اپنے بغیر دھلے ہاتھوں سے مت چھویئں۔ہاتھ دھو کر چھو لیں۔

٭جب آپ کو کھانسی ، نزلہ، زکام ،بخار کا مسئلہ ہو تو گھر سے باہر مت نکلیں۔

٭جس جگہ اور چیز کو بہت سے لوگ ہاتھ لگاتے ہیں ٹچ کر تے ہیں اس جگہ اور اس چیز کی بار بار صفائی کریں اور کوئی 



جراثیم کش سپرے استعمال کر کے اس جگہ ،چیز کو صاف کریں۔
٭اجتماع سے گریز کریں۔گھر میں رہیں

لائف اسٹائل میں تبدیلی ہی کرونا کا  واحد علاج ہے۔لہذا احتیاط کریں۔گھبرانا نہیں۔خؤد کو بدلیں ۔

یہ لائف اسٹائل  صرف چند دن تک اپنانا ہے اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس وباء سے نجات دے گا۔اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں۔صبح شام میں یہ دعا لازمی پڑھیں۔

"بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ"

دعا گو: پروفیسر محمد عمران حفیظ

گھبرانا نہیں ۔۔۔۔احیتاط کرنی ہے۔شکریہ





 


اصل ہیرو کون؟

اصل ہیرو کون: ۔عمادالدین محمد بن قاسم یا راجہ داہر

تحریر:محمد عمران حفیظ

تعارف راجہ داہر:
چچ راجہ داہر کے والد کا نام تھا۔ چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا۔چند سالوں میں وہ فوت ہوگیاتو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنااور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر ۔چچ کی ایک بیٹی تھی،  چچ کے بڑے بیٹے دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے  اس کے دوسرے بھائی داہر کے پاس  شمالی سندھ بھیج دیاکہ اس کی شادی کردی جائے۔داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا ۔جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا،بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کرکے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔قزاقی ،لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔
(تاریخ سندھ، صفحہ 45-46)

محمد بن قاسم سے قبل عرب اور سندھ کے تعلقات:عرب قبل از اسلا م بھی سندھ سے واقف تھے اور اسے ہند سے الگ ایک علیحدہ خطے کے طور پر جانتے تھے تاہم سندھ سے عربوں کی یہ واقفیت محاربانہ نہیں بلکہ تاجرانہ تھی۔ سندھ میں تیار ہونے والا کپڑا عرب میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا اور سندھ کی نسبت سے مسّند، مسّندیہ، سَنَد اور سند کہلاتا تھا۔

حضرت عمر فاروق  رضی اللہ  عنہ اور حضرے عثمان غنی  رضی اللہ  عنہ  کا دور اور سندھ:

امیرلشکر حکم بن عمرو اور سہیل بن عدی کی سپہ سالاری میں عہدِ فاروقیؓ میں مکران کی پہلی فتح عمل میں آئی اور اس باب میں حیران کُن اور دلچسپ بات یہ کہ جب مسلم سپاہ مکران پر حملہ آور ہوئی تو اہل مکران کے دفاع کے لیے سندھ کا ”راجا راسل“ اپنی فوج کے ساتھ مسلمانوں کے مدمقابل آیامگر ناکام ہوا۔

حضرت عمرؓ کی شہادت کے ساتھ ہی اہلِ مکران نے سرکشی کی راہ اختیار کی مگر حضرت عثمانؓ کے بروقت اقدام نے اس بغاوت کو فرو کردیا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہاں ایک بار پھر بغاوت نے سر اُٹھایا مگر اہلِ مکران کو اس بار بھی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ حضرت علیؓ کے نامزد کردہ سپہ سالارحارث بن مرہ عدی نے نا صرف اس فتنے پر قابو پالیا بلکہ مکران سے آگے بڑھ کر قیقان (گیگان/قلات کا قدیم نام) کے علاقے پر بھی قابض ہوگئے۔ اس طرح قلات پہلی مرتبہ اسلامی عملداری میں شامل ہوا۔

30ھ میں اسلامی افواج نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے سندھ کے شہر ’فہرج‘ پر قبضہ کرلیا۔ اس کامیابی کا سہرا ربیع بن زیاد کے سر رہا۔ مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے مکران اور اُس کے ملحقہ علاقہ جات مکران، قیقان اور قندابیل میں 36ھ سے 38ھ کے دوران میں کئی مرتبہ بغاوتیں ہوئیں جنھیں ناکام بنادیا گیا۔

بنو امیہ کا  90 سالہ دور حکومت اور سندھ: 41ھ تا  132ھ(661ء تا 750ء)

41ھ میں جب کہ حضرت امیرمعاویہؓ کا دور حکومت تھا سندھ میں ایک اہم کامیابی شہر ’ارمائیل/ارمِئیل‘ کی فتح کی صورت میں ہوئی۔ سمندر سے نصف فرسخ کی دوری پر واقع یہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ آج کل اس شہر کو ’ارمن بیلہ‘کہتے ہیں۔ یہ علاقہ قلات میں ’لسبیلہ‘کا صدر مقام ہے اور کراچی سے ساٹھ میل دور شمال میں واقع ہے۔

اموی  دور حکومت میں ہی  تاریخ اسلام کا دلخراش واقعہ کربلا پیش آیا جس نے اموی خلافت کا مستقبل تاریک کر دیا۔ واقعہ کربلا 10 محرم 61ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680عیسوی بروز اتوار پیش آیا۔(واقعہ  کربلاکی تفصیل الگ سے نیچے دی گئی ہے)

محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل  کے اسبا ب و واقعات:

78ھ (697ء)اموی خلیفہ گورنر مدینہ مروان بن حکم کے دور میں عمان کےقبیلہ بنوسامہ کے محمد بن حارث علافی اور اُس کے بھائی معاویہ بن حارث علافی نے اسلامی عملداری میں شامل مکران و سندھ کے علاقوں میں سرکشی اور بغاوت کا بازار گرم کردیا اور بنو اُمیہ کیطرف سے وہاں کے امیر سندھ سعید بن اسلم کلابی کو شہید کرکے مذکورہ علاقوں پر قابض ہوگئے۔  تاریخ کی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ علافی برادران کو سندھ کے راجا داھر کی مدد حاصل تھی اس کی اعانت اور اس کی مدد کے ساتھ وہ سندھ کے  اسلامی مفتوحہ علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے اور مرکز کی نافرمانی کرتے تھے ۔علافیوں کی اس سرکشی کے خلاف خلافتِ بنوامیہ کے مشرقی علاقوں کے گورنر حجاج بن یوسف نے 79ھ میں مجاعہ بن سِعر تمیمی کو مقررکیا، جنھوں نے علافیوں کے فتنے کا خاتمہ کردیا تاہم اس بغاوت کے سرخیل علافی برداران فرار ہوکر سندھ کے راجا داہر کی پناہ میں آگئے۔ علافیوں کے خلاف کامیاب کارروائی کے ایک سال بعد ہی مجاعہ بن سِعر تمیمی کا انتقال ہوگیا، جس پر حجاج بن یوسف نے 80ھ  بمطابق 699 عیسویں میں محمد بن ہارون بن ذراع نمیری کو مکران وسندھ کا والی مقررکیا اور انھیں خصوصی ہدایت کی کہ وہ مجاعہ کے ادھورے کا م کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سعید بن اسلم کلابی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ محمد بن ہارون نے مکران وسندھ کی ولایت پر مقرر ہوتے ہی راجا داہر سے اسلامی مملکت کے باغی محمد بن حارث علافی اور معاویہ بن حارث علافی کی حوالگی کامطالبہ کیا، مگر راجا داہر نے کوئی مثبت جواب دینے کی بجائے  خلافت کے باغیوں کی حوالگی سے صاف انکار کردیا۔تقریباً 14سال تک یہی صورتحال رہی ۔یہاں یہ بات نوٹ فرما لیں کہ عمان کا قبیلہ بنو سامہ اہل بیت سے نہیں تھے اور نا ہی علافی برادران کوئی اہل بیت کی نسل تھے۔

اسی زمانے میں ایک اور حادثہ پیش آیا جو بہت مشہور بھی ھے  اور جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ، کافی عرصہ سے عرب کے چند خاندان تجارت کے سلسلہ میں سراندیپ  (سری لنکا)میں رھایش پذیر تھے ۔۔ اس خاندان کے بڑے  مردوفات پا گیے تو اس علاقہ کے حاکم نے انھیں (یتیم بچوں اور عورتوں کو ) واپس ان کے وطن عرب بھجوانے کا بندوبست کیا اور ان کا مال اور اسباب بھی کشتیوں میں لاد دیا ۔۔ سراندیپ کے راجا نے یہ کام بہت عزت اور اکرام سے کیا اور اپنے قابل اعتماد درباری لوگوں کی حفاظت میں ان کو واپس روانہ کیا اور خلافت کیلئے اور حجاج کیلئے تحفہ اور تحائف بھی ساتھ بھجوائے ۔تاریخ کی بعض کتابوں میں یہ بھی آیا ہے کہ ان تحائف میں کعبۃ اللہ کے لئے قیمتی قالین اور مسجد نبویؐ کے لئے بھی قیمتی تحائف شامل تھے اور اس قافلے میں زیادہ تر مسلمان عورتیں  مکہ و مدینہ کی زیارت کے شوق میں جہاز میں سوار ہو گئی تھیں  کیونکہ یہ تحائف جب مکہ اور مدینہ پہنچتے  تو انہیں  بھی ساتھ جانے کا موقع مل جاتا۔دوسری طرف   حاکم سر اندیپ جانتا تھا کہ مسلمان اور ان کی فتوحات روز بروز بڑھ رھی تھیں اوروہ  کسی بھی صورت مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاھتا تھا ۔۔ اس نے یہ احسان کا معاملہ کیا اور سوچا کہ عین ممکن ھے اس وجہ سے مسلمان فوج اس پر حملہ آور نہ ھوں ۔ اور اس طرح اس نے یتیم بچے اپنے وطن روانہ کیے ۔ یہ کشتیاں سراندیپ سے روانہ ھو کر ساحل سمندر کے قریب قریب سفر کرتی ہوئی خلیج فارس کی طرف بڑھ رہی تھیں کہ وہاں یہ لوگ خشکی پر اتر کر اور پھر حاکم سراندیپ کے تحائف کے ساتھ حجاج کی خدمت میں کوفہ پہنچیں گے ۔ لیکن راستے میں باد مخالف کے طوفان نے اس کشتیوں کو دھکیل کر سندھ کی بندر گاہ دیبل پر لا ڈالا ۔ جہاز جب دیبل (سندھ)کی حدود میں پہنچا تو اسے دیبل کے ’مید‘ قبیلے سے تعلق رکھنے والے بحری قزاقوں نے لوٹ کر اُس پر سوار بچوں اور خواتین کو گرفتار کرلیا۔ حاکم سر اندیپ اور حاکم عراق حجاج  کے درمیاں جذبہ خیر سگالی پر مبنی یہ ایک بین الاقوامی سفارت تھی جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے قزاقوں نے رخنہ اندازی کی تھی۔

اس واقعہ نے اہل عراق میں غم وغصہ کی لہر دوڑادی، چنانچہ حجاج بن یوسف نے راجا داہر سے ان قزاقوں کے خلاف اقدام اوراسیران کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن اس بار بھی راجا داہر نے اپنی پُرانی روش کا مظاہرہ کیا اور یہ کہہ کر کہ ’بحری قزاق میرے بس میں نہیں ہیں‘ لیٹروں کے خلاف کارروائی سے صاف انکار کردیا۔ حجاج بن یوسف نے معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کے لیے راجا داہر کو کئی خطوط لکھے جو کہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں جس میں یہ پیش کش کی کہ اگر وہ چاہے تو ڈاکوؤں کے خلاف اس کی مدد کے لیے مسلمان فوج بھیجی جاسکتی ہے جو راجا داہر کی کمان ہی میں ڈاکوؤں سے لڑے گی، مگر اس پیش کش کو راجا نے کوئی اہمیت نہ دی اور لٹیروں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے صاف انکار کردیا۔ جہاز میں بنی یربوع کی ایک عورت بھی سوار تھی ۔ جب جہاز کو لوٹا گیا اور عورتوں کو گرفتار کیا جا رھا تھا تو اس عورت نے درد ناک انداز میں آواز میں حجاج بن یوسف کو پکارا  دہائی دی اور کہا ۔۔۔۔'' یا حجاجاہ" اور یہ ھے وہ پکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پر لبیک کہتے ھوئے حجاج نے تاریخی فقرہ کھا ۔۔ کھتا ھے ۔۔لبیک ۔۔۔۔ چچ نامہ ص 121 سمیت تاریخ کی کئی کتابوں میں یہ واقعہ ایسے بھی درج ہے جوکہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ

ان مغویوں میں سے ایک آدمی فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچااور حجاج کو کہا کہ مسلمان عورتیں راجا داھر کے پاس قید ہیں جو تجھے مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔۔۔ اس پر حجاج نے لبیک کہا “۔ (چچ نامہ ص ۱۲۱)

 

محمد بن قاسم کی سندھ آمد اور فتح سندھ کا واقعہ:

 یہ  بنو امیہ کے تیسرے خلیفہ عبدالملک بن مروان کا دور خلافت تھا۔حجاج بن یوسف نے دربار  سے حملہ کی  اجازت طلب کی  جو کسی مصلحت کے تحت  نا دی گئی تو حجاج بن یوسف نے خود ہی  منصوبہ بندی کی ۔راجا داہر کے عدم تعاون پر حجاج بن یوسف نے ڈاکوؤں کے خلاف ازخود کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے عبیداللہ بن النبہان کی سربراہی میں ایک مہم دیبل بھیجی، مگر یہ مہم ناکام رہی اور عبیداللہ بن النبہان اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ اسی کے فوراً بعد بدیل بن طہفہ البجلی کی سرکردگی میں تین ہزار سپہ پر مشتمل لشکر سندھ پہنچا جس نے نیرون (حیدرآباد) پر حملوں کا آغاز کیا ہی تھا کہ راجا داہر نے اپنے بیٹے’جے سیہ‘ کی قیادت میں چار ہزارکا لشکر ڈاکوؤں کی مدد کے لیے بھیج دیا، جس کے نتیجے میں اسلامی فوج دوطرفہ حملوں کی زد میں آگئی اور بدیل بن طہفہ بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، اور یوں راجا داہر کی مداخلت سے یہ دوسری مہم بھی بے نتیجہ رہی۔ خلافتِ بنو امیہ دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھی اسی لیے نیرون  (حیدرآباد) کے حکام کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اسلامی حکومت اس واقعہ پر شدید ردعمل ظاہر کرے گی، اسی لیے نیرون کے حاکم ’سندر‘ نے راجا  داہرکے علم میں لائے بغیر حجاج کے یہاں اپنا ایک سفیر روانہ کیا اور بدیل بن طہفہ کے واقعہ پر معذرت اور امان طلب کی اور ساتھ ہی سالانہ خراج کی ادائیگی کا وعدہ بھی کیا۔ حجاج نے سندر کی معذرت اور پیش کش قبول کرتے ہوئے اسے پروانہ امن لکھ دیا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد 86ھ  بمطابق 705-715 عیسویں میں  بنو امیہ کے چوتھے خلیفہ ولید بن عبدالملک کے سرپر آراءخلافت ہونے پر حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجا داہر کے خلاف کارروئی  کے لئے خلیفہ سے اجازت حاصل کرلی۔ مرکز سے اجازت ملتے ہی حجاج بن یوسف نے بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں شروع کردیں۔ راستے کی صعوبتوں کو پیش نظررکھتے ہوئے خشکی کے راستے حملہ آور ہونیوالی فوج کے لیے ضرورت کے ہر سامان، حتیٰ کہ سرکہ میں بھگو کر سائے میں خشک کی گئیں روٹیاں اور سوئی دھاگہ تک، کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ دوسری جانب براستہ سمندر حملہ آور ہونے والے بیڑے کی تیاری کے لیے اپنے وقت کے ماہر جہاز رانوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ پھر ان سب انتظامات کے ساتھ اس مہم کی سربراہی کے لیے بنو ثقیف کے ہونہار سپوت  عماد الدین محمد بن قاسم کا انتخاب کیا گیا جو ان دنوں فارس کے کُردوں کے خلاف کامیاب جہادکے بعد ’رے‘ کی مہم پر روانہ ہونے کو تھا۔ محمد بن قاسم نے تیاریاں مکمل ہوتے ہی اپنے مستقر (شیراز) سے روانگی کا آغاز کیا۔(بعض راویوں کے مطابق محمد بن قاسم  حجاج کا داماد، اور بھانجا تھا) وہ مکران سے ہوتے ہوئے فنزپور (غالباً پنج گور) پہنچے اور اسے فتح کرنے کے بعد ’ارمائیل‘ کی جانب رُخ کیا جو ایک مرتبہ پھر سرکشی کی راہ پر تھا۔ ارمائیل کی مقرر فتح کے بعد محمد بن قاسم رمضان 93ھ بروز جمعہ  بمطابق 711 عیسوی دیبل پہنچ گئے، اورٹھیک اسی دوران اسلامی بحری بیڑہ بھی دیبل کی بندرگاہ میں داخل ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے فوری کارروائی کے طور پر شہر پناہ کے گرد خندق کُھدوا کر اُس کے گردا گرد نیزے گاڑھ دئیے جن پر اسلامی پھریرا لہلہا رہا تھا، اور ہر نیزے کے نیچے ایک ایک سپاہی متعین تھا۔ اسلامی لشکر زبردست آلاتِ حرب وضرب سے لیس تھا۔ اس سامان میں’عروس‘ نامی ایکبہت بڑی منجنیق بھی تھی جسے پانچ سوافراد مل کر چلاتے تھے۔

دیبل کے محاصرے کے دوران محمد بن قاسم کو اطلاع ملی کہ اہلِ دیبل کے حوصلے شہر کے مرکزی مندر پر نصب جھنڈے کی وجہ سے قائم ہیں اگر کسی طور یہ جھنڈا سر نگوں ہوجائے تو اہلِ شہر کی ہمت خود ہی پست ہو جائے گی۔ یہ جھنڈا مندر پر نصب ایک لٹھ پر آویزاں تھا، جو اس قدر بڑا تھا کہ جب تیز ہوا چلتی تو یہ سارے شہر پر لہرانے لگتا تھا۔ اسی لیے یہاں کے شہریوں کا عقیدہ تھا کہ جب تک اُن پر یہ جھنڈا سایہ فگن رہے گا کوئی انھیں گزند نہیں پہنچاسکتا۔ جھنڈے کے متعلق اہل شہر کی ضعیف الاعتقادی کا علم ہوتے ہی محمد بن قاسم نے ’عروس‘ نامی منجنیق کو شہر کے مشرقی جانب نصب کرنے کا حکم دیا تاکہ یہاں سے جھنڈے کو بآسانی نشانہ بنایا جاسکے اور شہریوں کا جانی نقصان بھی کم سے کم ہو۔ منجنیق کے نصب ہوتے ہی جھنڈے پر سنگ باری شروع کردی گئی اور آن کی آن میں جھنڈا سرنگوں ہو گیا، جھنڈے کا گرنا تھا کہ اہلِ شہر مشتعل ہوکر حملہ آور ہوئے مگر انھیں مسلم سپاہ کے بھرپور جواب نے پلٹنے پر مجبور کردیا۔ محمد بن قاسم اور اُس کی افواج پر اہلِ دیبل کی کمزوری عیاں ہوچکی تھی لہٰذا انھوں نے پہلے سے بڑھ کر حملہ کیا اور سیڑھیوں کی مدد سے فصیل پر چڑھ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دیبل شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا، تاہم راجا داہر دیبل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے برسر پیکار جنگجوؤں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور عام شہریوں کے لیے مکمل امان اور مذہبی آزادی کا اعلان کیا۔ اسی کے ساتھ ہی شہر میں مسجدکا قیام عمل میں آیا اور چار ہزار مسلمانوں کو یہاں بسایا گیا۔ یہ سارے امور تین دن میں انجام دینے کے بعد محمد بن قاسم نے نیرون (حیدرآباد) کا سفر اختیار کیا۔ نیرون میں حجاج بن یوسف کے پروانہ امن کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف نیرون کے حاکم ’سندر‘ نے شرائط کے ضمن میں مکمل وفاداری کا ثبوت دیا۔  محمد بن قاسم نیرون سے ’سیہان‘ روانہ ہوا، راستے میں آنے والے کئی چھوٹے شہروں نے صلح وامان کی درخواست کی جو قبول کرلی گئی۔ ’سیہان‘ بھی کسی بڑی مزاحمت کے بغیر فتح ہوگیا۔ محمد بن قا سم نے ’سیہان‘ سے علاقہ ’کچھ /سوراشتر‘ کا رُخ کیا جو راجا راسل کی عملداری میں تھا اور جہاں دیبل کا مفرور راجا داہر پناہ گزیں تھا، یہاں راجا داہر نے ایک ہولناک جنگ کا سامان مہیا کررکھا تھا۔ اس کی فوج میں 27منتخب جنگی ہاتھی تھے۔ سندھ کے راجوں مہاراجوں کے یہاں جنگی ہاتھیوں کے میدان جنگ میں اُترنے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جو ہاتھی زیادہ بہادر ہوتا تھا اس کی سونڈ میں کٹار باندھ دی جاتی تھیاور پوری سونڈ زرہوں سے چھپادی جاتی تھی، نیز اس کے پورے جسم پر لوہے کی زرہیں اور میخیں ہوتی تھیں اور اس کے گرد پانچ سو پیدل سپاہیوں کی فوج ہوتی تھی۔ اس حساب سے صرف ستائیس جنگی ہاتھیوں کے ہمراہ تیرہ چودہ ہزار سپاہی موجود تھے۔ سوار اور پیدل فوج اس کے علاوہ تھی۔ ’کچھ /سوراشتر‘ میں دونوں افواج کئی ماہ تک ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہیں۔ بالآخر جب معرکہ بپا ہوا تو یہ فتح سندھ کا سب سے ہولناک معرکہ ثابت ہوا۔ راجا داہر ہاتھی پر سوار فوج کی قیادت کررہا تھا۔ اُس کے ہمراہ ٹھاکروں کی فوج تھی۔ اثنائے جنگ راجا کا ہاتھی مہابت سے بے قابو ہوگیا، نتیجتاً راجا کو ہاتھی سے کودنا پڑا، جس پر قبیلہ بنو طے کے قاسم بن ثعلبہ بن عبداللہ بن حصن طائی نے راجا داہر کا کام تمام کردیا۔

اس طرح واقعہ کربلا سے تقریباً 32/33سال بعد سندھ کا  راجہ داہر عما ن کے بنو سامہ کے علافی برادران  (غیر اہل بیت)کو پناہ دینے  اور یرغمال مسلم عرب    خواتین اور بچوں کی واپسی سے انکار  ، دراصل راجہ داہر کی سندھ حکمرانی کا سورج غروب ہونے کا سبب بنا۔

راجا کے مارے جانے پر اُس کی فوج میں ابتری پھیل گئی اور وہ ’ارور‘ اور ’برہمن آباد‘ کی سمت فرار ہوگئی۔ کچھ (سوراشٹر) کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ’ارور‘کا رُخ کیا جسے ’الور اور اروڑ‘ بھی کہتے ہیں، اور جو رائے خاندان کے راجوں کا پایہ تخت تھا۔ یہاں کسی سخت معرکے کے بغیر کامیابی حاصل ہوئی۔ محمد بن قاسم نے دیگر مفتوح شہروں کی طرح یہاں بھی انتظامی امور انجام دیے۔ یہاں سے فارغ ہونے پر مسلم سپاہ نے ’برہمن آباد‘ پر یلغار کی جہاں راجا داہر کی فوج کا بقیہ حصہ چھپا بیٹھا تھا۔ ’برہمن آباد‘ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے بنا لڑے مصالحت کی بنیاد پر ’ساوندری، بسمد، الرور اور بغرور‘ کے شہروں پر فتح پائی۔

94ھ میں محمد بن قاسم کی فوج کامقابلہ راجا داہر کے بیٹے ’راجاچچ‘ سے ہوا، جس میں راجا کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 95ھ میں محمد بن قاسم نے ملتان کا قصد کیا جہاں ایک سخت محاصرے کے بعد حاکم ملتان نے شہر کے دروازے کھول دیے۔ ملتان کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ایک بار پھر جنوب کا رُخ کیا، جہاں ’الرور اور بغرور‘ میں مسلم فوجوں نے کچھ دن آرام کے بعد سوراشٹر کے مشہور شہر بیلمان (بھیلمان) کا سفر اختیار کیا۔ محمد بن قاسم کو یہاں بھی کسی مزاحمت کے بغیر فتح حاصل ہوئی اور اہل شہر نے اسلامی افواج کی بالادستی قبول کرلی۔ محمد بن قاسم بیلمان (بھیلمان) کے بعد ’کیرج‘ پہنچے جہاں اُس کا مقابلہ ’راجا دوہر‘ سے ہوا۔ اسلامی افواج اس معرکے میں بھی فتحیاب ہوئیں اور ’کیرج‘ بھی اسلامی عملداری میں آگیا۔
محمد بن قاسم کی مسلسل کامیابیوں نے فتح سندھ کا باب مکمل کردیا اور یوں اس خطے کو سرزمین ہند میں ’باب الاسلام‘ یعنی ’اسلام کا دورازہ ‘ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ محمد بن قاسم نے مفتوح علاقوں میں بہترین حسنِ سلوک اور زبردست انتظامی قابلیت کا مظاہرہ کیا، جو اُس کی ہر دلعزیزی کا باعث بنا۔

اب سندھ ایک وسیع وعریض اسلامی مملکت کا حصہ تھا، چنانچہ یہاں بھی علم و حکمت اور صنعت وحرفت کو خوب فروغ حاصل ہوا اور یہاں کے باشندوں نے عرب پہنچ کر مختلف علوم و فنون میں خوب نام پیدا کیا جن میں ایک نمایاں نام  خضدار/قلات کے مشہور محدث امام داؤد سنن ابی داؤد کے مصنف ہیں۔

سچی بات تو یہ ہےکہ سندھ کی فتح نے سندھ اور اہل سندھ کی قسمت بدل کر رکھ دی۔اس لئے سندھ کو باب الاسلام  سندھ کہا جاتا ہے کیونکہ سندھ میں  اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی تھی ۔کمزور عقیدے اور تہم پرست یہ لوگ ظالم ہندو حکمرانوں کے رحم و کرم تھے۔ ایسے میں اسلام اور مسلمان اہل سندھ کے لیے بارانِ رحمت ثابت ہوئے۔ اسلام سے اہل سندھ کی محبت کا ایک ثبوت محراب دار منفرد ٹوپی ہے جس آج بھی اہل سندھ اپنا فخر سمجھتے ہیں۔

بنو امیہ کی حکومت 41ہجری تا132ہجری (661-750ء) تقریباً89/90سال تک رہی۔۔اس  دوران دنیا کا شاید ہی کوئی کونہ ہو جہاں مسلمانوں نے فتح حاصل نا کی ہو۔سمر قند، بخارا سے لیکر قرطبہ و غرناطہ تک ،ہند، سندھ، چین روس سمیت افریقہ تک یہ  اسلامی سلطنت پھیل گئی تھی۔

ــــــــ

معلومات:

بنو عباس کا  600 سالہ دور حکومت: 132ھ تا  656ھ(750ء تا 1258ء):

بنو امیہ کی خلافت کا دور اختتام پذیر ہوا تو بنو عباس کی حکومت 132ھ تا 656 ھ (750ءتا 1258ء) تقریباً 600 سال تک قائم رہی: یہ بنو عباس کی حکومت  دراصل بنو امیہ کے خلاف  ایک  خطرناک تحریک کے نتیجے میں وجود میں آئی  جو کہ اہل بیت بنو ہاشم  سے بنو عباس نے شروع کی اور بعد ازاں اس تحریک کے کامیاب ہونے پربنو عباس نے  بنو امیہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر خلافت بنو عباسیہ  کی بنیاد رکھی۔اصل میں بنی ہاشم کے اندر بھی دو گروہ تھے ایک وہ جو حضرت علی کے خاندان اولاد کو خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے تھے جو کہ شیعان علی  کہلائے جو کہ بعد ازاں شیعہ فرقہ اثنا عشری بنے۔ دوسرا گروہ وہ جو حضرت عباس کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتے تھے ۔ بنو امیہ کے خلافت تحریک کا آغاز بنو عباس نے ہی کیا لیکن شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کے خلاف تحریک شروع کی ۔ خلافت کے طول عرض میں بنو امیہ کے خلاف بغاوتیں شروع ہو گئیں جس سے بنو امیہ کی خلافت کا خاتمہ ہوا اوربنو عباس غالب آیا  جس کا پہلا حکمران عبداللہ بن محمد المعروف ابو العباس السفاح(خون ریزی کرنے والا) تھا جس نے بنو امیہ کا بچہ بچہ قتل کروا دیا اور حضرت امیر معاویہ کی قبر کھودی ، ہشام بن عبدالملک کی لاش کو قبر سے نکال کر کوڑے لگا کر لٹکایا اور آگ لگائی۔ بنو عباس نےتقریباً 600 سال حکومت کی۔اگر بنو امیہ کے دور میں اہل بیت وہاں سے فرار ہو کر راجہ داہر کے پاس آ گئے تھے تو بنو امیہ کے خلاف تحریک کس نے شروع کی اور کیسے کامیاب ہوئی؟ ہر تحریک کی طاقت تو افراد ہوتے ہیں۔مستند تاریخ دانوں کے مطابق  اہل بیت واقع کربلا کے بعد مدینہ میں ہی قیام پذیر ہو گئے تھے اور اپنی خلافت کے دور میں اسلام کی اشاعت کےلئے اور عسکری طاقت کیساتھ دنیا بھر میں نکلے اور ہندوستان بھی آئے۔لہذاخلافت عباسیہ کا 600سالہ دور خلافت ہی سندھ کے ان چند شر پسند عناصر کو ان کے اس سوال کا جواب ہے جو یہ کہتے ہیں راجہ داہر نے اہل بیعت کو پناہ دی جس وجہ سے محمد بن قاسم نے حملہ کیا۔مزید دنیا بھر کی کسی لائبریر ی میں تاریخ  کی کوئی ایسی کتاب یا حوالہ موجود نہیں جو ان احمقوں ، توہم پرستوں اور داہریوں کی بات کو ایک نقطہ کی حد تک ہی مان لے ۔یہ  بے بنیاد جھوٹا پروپیگنڈا جو کسی گھٹیا اسلام دشمن سازش کا حصہ ہے ان شاء اللہ اپنی موت آپ ہی مر چکا ہے۔

اسیران ِواقعہ کربلا :

واقعہ کربلا 10 محرم 61ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680عیسوی بروز اتوار پیش آیا ۔بچ  جانے والے اہل بیت اور دیگر کی تعداد بارے مختلف روایتیں ملتی ہیں۔یہ سب  اہل بیت لشکر عمر سعد کےہاتھوں اسیر ہوئے۔ اسیران کربلا کو رات کربلا میں ہی رکھا گیا اور 12/11 محرم کو بعد از ظہرپہلے  اس  وقت کے کوفے کے گورنر عبیداللہ بن زیاد (ابن زیاد  ) کے سامنے  پیش کیا جس نے ان  سب اہل بیت کو  شمر اور طارق بن محفر سمیت ایک دستہ کے ہمراہ شام  دمشق دربار یزید کیطرف روانہ کر دیا۔اسیران  اہل بیت کے ساتھ شدت غم اور رونے دھونے میں اہل یزید  اور بنو امیہ کی دیگر خواتین ان کے ساتھ شامل رہیں جوکہ  غم و سوگ دمشق شام میں قیام کے دوران  جاری  رہا۔اسیرانِ اہل بیت کے ناموں اور تعداد کے بارے مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔اہل بیت اسیر کربلا میں  6مرد (امام سجاد، امام باقر، امام حسین کے 2بیٹے:محمد و عمر، امام حسن کا بیٹا محمد اور نواسہ زید) اور9  عورتوں  (حضرت علی کی بیٹیاں:زینت ،فاطمہ، ام کلثوم، امام حسین کی چار بیٹیاں :سکینہ ، فاطمہ، رقیہ، زینب، امام حسن کی بیٹی  فاطمہ، اور امام حسین کی زوجہ رباب )  کا تذکرہ ملتا ہے۔جو کہ  دمشق سے واپسی پر مدینہ میں  ہی مقیم ہو گئے۔

مستند اسلامی تاریخ دان ابن اعثم ، شیخ مفید، شیخ طبرسی، محمد بن سعد، محمد بن جریر طبری، موفق بن احمد خوارزمی ، ابن عساکر، سبط ابن جوزی، ابوالفداء اسماعیل بن کثیر دمشقی، علامہ محمد باقی مجلسی ، قاضی نعمان مغربی(45 دن کا قیام لکھتے ہیں)، سید ابن طاؤس (ایک ماہ دمشق کے قید خانے میں لکھتے ہیں)، عماد الدین طبری (7 دن بعد مدینہ بھجوا دیا لکھتے ہیں۔) سب اس بات پہ متفق ہیں کہ اسیران اہل بیعت دمشق سے مدینہ کی طرف روانہ کئے گئے۔جہاں باقی زندگی انہوں نے وہیں گزاری۔

ایک ورایت کے مطابق حضرت علی  کی  کل 9 بیویاں تھی(ایک وقت میں 4 سے زائد نہیں)۔جس سے آپ کی 18 بیٹے اور 18 ہی بیٹیاں پیدا ہوئیں۔جن میں سے 6 بیٹے آپ کے سامنے ہی گزر گئے۔6 بیٹے کربلا میں شہید ہوئے ۔ دنیا میں اس وقت  آپ کے 5 فرزندوں کی اولاد موجود ہےجن میں حضرت امام حسن، حضرت امام حسین ، حضرت محمد حنفیہ، عمر الاطراف اور حضر ت عباس علمدار شامل ہے۔یزید نے  دمشق سے مدینہ واپسی کا اہتمام کیا اور بچ جانے والے تمام اہل بیعیت کو واپس مدینہ بھجوا دیا۔


Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

  پاکستان کا قرضہ ختم: (محمد عمران حفیظ) ریکوڈک، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کاقصبہ ہے جس میں 13000 مربع کلومیٹرتک تقریباً 6 بلیئن...