Monday, July 13, 2020

پاکستان میں نیا نظام حکومت؟

نظام حکومت میں تبدیلی یا اصلاحات ؟

(پروفیسر محمد عمران  حفیظ)

دنیامیں اس وقت کل 195ممالک ہیں جن میں  سے مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کی تعداد 50 ہے ۔لیکن مسلم  حکومت  والےممالک کی تعداد 45ہے ۔ ان 45ممالک میں صرف 4ممالک  کے نام اسلامی جمہوریہ ہیں جن میں پاکستان ، افغانستان ، ایران اور موریطانیہ  شامل ہیں۔آئین کسی ریاست کی روح ہوتا ہے ۔حقیقی آئین ہی کسی ریاست کی عوام کی رضامندی اور خوشنودی  کا مظہر ہوتا ہے جس کے تحت کسی ریاست کا نظام حکومت چلایا جاتا ہے۔جدید دور میں آئین ہی  کسی ریاست کی عوام کی ترجمانی کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ بغیر آئین  و قانون کے کوئی ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی کیونکہ آئین ہی واحد متفقہ دستاویز ہوتی ہے جس کے ذریعے کسی ریاست کے تمام اداروں کی تشکیل ، ساخت اور فرائض  وحدود کا تعین کر دیا جاتا ہے۔آئین پر عمل درآمد ہی اس ریاست کی بقاء کی ضامن ہوتی ہے۔  پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے آئین 1973 ء  میں "مسلم" اور" غیر مسلم" کی تعریف کی گئی ہےجس کی رو سے یہ بتایا گیا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم ۔ آئین پاکستان 1973ء کے حصہ دو ازدہم کے باب نمبر 5"توضیح "میں درج آئین کے آرٹیکل 260"تعریفات" کی ذیلی دفعہ 3(الف، ب)کے مطابق  قادیانی  گروپ، لاہوری گروپ اور احمد گروپ سمیت کوئی بھی گروپ جو کسی بھی مفہوم یا تشریح  کے  ذریعے سے ختم نبوتﷺ کا انکاری ہے وہ غیر مسلم ہوگا۔آئین کے اس آرٹیکل کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت ﷺ مسلمان  ہونے کی لازمی شرط طے ہو گئی ہے اور الحمد اللہ مملکتِ خدادار پاکستان کے غیور مسلمان اس عقیدہ کی حفاظت پہ پہرا دے رہے ہیں۔آئین کے اسی آرٹیکل کی وجہ سے یہ آئین 1973ء متفقہ طور پہ  منظور ہوگیا تھا اور آج تک مقدس تسلیم کیا جاتا ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ یہ آرٹیکل اس آئین کی روح ہے تو بے جا  نہ ہو گا۔آئیں  ریاست میں اسی آئین کی باقی دفعات  پہ عمل درآمد کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں ۔کیونکہ اب  گڈ گورننس کا تصور بھی جدیدریاستی نظام حکومت کا اہم موضوع بن چکا ہے اور گڈ گورننس آئین پہ عمل درآمد کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔

1973ء کے آئین پاکستان میں وضع کردہ  پارلیمانی جمہوری نظام حکومت کیا 21 ویں صدی میں جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق ضروریات پوری کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے اسی  آئینی نظام کے تحت پاکستان کو چلانے کے کے نتائج پہ غور کرنا ہوگا کہ آیا جو نظام حکومت 1973ء میں متفقہ طور پہ طے ہوا تھا اس کو اپنانے کے بعد نتائج کیا ملے؟ تو نتائج جان لیں کہ 1973ء سے لیکر 2020ء تک 47 سال ہو چکے ہیں اس دوران 1977 تا 1988(تقریباً 11 سال) اور 1999تا2008ء (9تقریباً سال)کل 20 سال تک ملک میں مارشل لاء لگا رہا اور غیر جمہوری قوتوں نے ملک کے اس آئین 1973ء کومتعددبارمعطل کیا۔باقی 27 سالوں میں سیاسی جمہوری پارٹیوں کی  8 بار حکومتیں بدلیں جس دوران 14 وزرائے اعظم بدلے گئے۔ جمہوری دورِ حکومت کے 27 سالوں میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے 23 سال حکومت کی جن میں پاکستان مسلم لیگ نے10سال 1ماہ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے تقریباً 13سال5ماہ حکومت کی ۔کیونکہ جمہوری سیاسی حکومتیں عوام کی نمائندہ حکومتیں ہوتیں ہیں لہذا ان پہ عوام کی تربیت کے لحاظ سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عوام کی نمائندہ حکومت ہونے کی وجہ سے عوام میں سیاسی و معاشرتی  اخلاقیات اور اقدار کا تعین کرنا انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اخلاقیات سے مراد غلط اور صحیح ، اچھے اور برے کی پہچان کرنا ہے ۔ وعدہ خلافی ، جھوٹ، کرپشن ، مفادپرستی، بد عنوانی ، رشوت خوری، ناپ تول میں کمی   اور ناجائز اثاثے بنانے کی  حوصلہ شکنی  کرنا  عوامی حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے  ان دونوں جمہوری سیاسی جماعتوں کی قیادت پہ سنگین نوعیت کی کرپشن کے الزامات لگے کیونکہ ان جماعتوں کی قیادت اور سیاسی راہنماؤں کے اثاثوں میں سیاست میں آنے کے بعد غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا لیکن عام آدمی کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ بہتری نا آ سکی۔  اس غیر واضح تکثیری انتظامیہ پہ مشتمل نظام حکومت میں پاکستان کے تقریبا تمام ریاستی اداروں میں میرٹ سے ہٹ کر سیاسی بھرتیاں ہوئیں جس سے انتظامیہ اور عدلیہ سمیت تمام  ادارے کرپٹ ہوئے   جن میں پولیس اور مالیاتی ادارے   سر فہرست ہیں جو ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے بے بس ہو گئے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے لگے۔میرٹ نا ہونے کیوجہ سے بہت بڑی تعداد میں ملک کا ذہین دماغ بیرون ملک شفٹ ہوا جس میں ڈاکٹرز، انجینیرز، پروفیسرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے پیشہ ور شامل تھے۔ اس سیاسی نظام نے صرف چند خاندانوں کو واضح فائدہ پہنچایا۔ ملک کا تعلیمی اور صحت کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہوا۔انسانی ترقی(صحت ، تعلیم)  پہ خرچ کرنے کی بجائے  انفراسٹرکچر سڑکیں پل بنانے پہ پیسہ لگایاگیا۔ ملک کے اندر سیاسی و معاشرتی اخلاقیات کے معیارات بدل گئے جو کہ اس وقت کے حکمران طبقوں نے رائج کئے  جس سے عوام کے اندر اچھے ، بُرے اور غلط ،صحیح کی پہچان کی اہلیت بُری طرح متاثر ہوئی ۔ 1973 ء کے آئین کے تحت اپنائے گئے حکومتی نظام کا کمال دیکھیں کے "مفادات کا تصادم" کلیش آف انٹرسٹ کا اصول /قانون نا ہونے کیوجہ سے اس سے ملک کے اندر کاروباری کارٹلز نے جنم لیا۔جس سے ریاستی حکومت کے ساتھ متوازی مگر باطنی انداز میں مافیا اور کارپوریٹ طرز حکومت چلتی رہی۔انہی کاروباری کارٹلز کے سربراہ حکومت میں اور مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر اپنی مرضی کی قانونی سازی اور اور پالیسیاں بنواتے رہے ہیں جس کا ثبوت شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ اور گندم انکوائری کمیشن رپورٹ ہیں ۔ان کو آپ پڑھ کر دیکھ لیں آپ ان چھپی ہوئی متوازی کارٹلز کی حکومت سے انکار نہیں کر سکیں گے۔

جہاں ریاست کمزور ہوتی ہے وہیں خاندانی برادری کا نظام مضبوط ہوتا ہے۔ 1973ء کے آئین میں چند دفعات نکال کر  باقی آئین نے ریاست کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا اور ملک کے اندر شخصیات، قوموں، صوبائیت اور برادریوں پہ مبنی تفریقی نظام کو مضبوط کیا۔جس سے ملک کے اندر بہت سے علاقوں میں احساس  محرومی نے جنم لیا جس کی مثال جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے کی تحریک اور بلوچستان کے مسائل ہیں۔

1973ء کے آئین کے تحت رائج انتخابات کا نظام انتہائی کرپٹ، غیر واضح اور غیر معیاری ثابت ہوا ہے۔ جس میں حلقہ بندی کی دھاندلی سے لے کر انتخابات کی دھاندلی تک ہر قسم کی دھاندلی کے 100فیصد چانسز ہوتے ہیں جس کا فائدہ بالا سیاسی جماعتوں نے بہت اچھی طرح اٹھایا۔  اس آئین کے تحت ہونے والے کوئی ایک انتخابات بھی متفقہ طور پہ شفاف نہیں مانے گئے اور نا ہی اس نظام کو بہتر کرنے یا بدلنے کی کوشش کی گئی جس کی دلیل 2014ء میں دھاندلی کمیشن رپورٹ ہے۔

یہ آئین پاکستان کی عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کے لئے ایک آلہ کے طور پہ استعمال ہواہے اس کا ثبوت اس ملک میں ایک تعلیمی نصاب کا رائج نا ہونا ہے۔ اس آئین میں درج حکمت عملی کے اصولوں کے ذریعے مختلف طبقات نے جنم لیا جنہوں نے بعد ازاں ملک کو فرقہ بندی کی صورت میں شدید نقصان پہنچایا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل  اس خطہ کا برطانیہ کی کالونی ہونے کے ناطے وہاں کا پارلیمانی جمہوری نظام حکومت  ی بغیر سوچے سمجھے 1973ء کے آئین کے ذریعے یہاں اپنانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ بُری طرح ناکام ہو چکا ہے جس کی دلیل پاکستان کی معیشیت کی تباہی ہے۔ اس نظام نے مفاد پرست سیاستدان پیدا کئے جن کے پاس ویژن کی شدید کمی رہی اور وہ پاکستان کو محض حکومت کرنے اور لوٹنے کا اڈا سمجھ کر یہاں آتے رہے اور واردات کرنے کے بعد واپس برطانیہ جاتے رہے ہیں۔ملک کے قیمتی اثاثوں کو گروی رکھ کر ذاتی اثاثوں کو بیرون ملک اپنی اولاد کے نام پہ بنایا گیا۔

تمام جدید ریاستوں اور عالمی اداروں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کرپشن ہی دہشت گردی کا باعث بنتی ہے ۔دہشت گردی  دراصل کرپشن کی انتہائی شکل ہے۔ایف اے ٹی ایف کا ادارہ اور اس کے اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جو ممالک متواتر سنگین دہشت گردی کا شکار ہوئے یا جہاں دہشت گروں نے غیر ریاستی عناصر کی حیثیت سے  جنم لیا وہاں پہلے کرپشن، منی لانڈرنگ  اور بھتہ خوری شروع ہوئی۔گذشتہ ادوار میں پاکستان نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لئے کوئی قابل قبول اقدامات نہیں کئے جس کا ثبوت پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہونا ہے۔مزیدعدلیہ سمیت کوئی ادارہ  پاکستان کو لوٹنے اور کرپشن کرنے والوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ  نظام کی بنیاد ہی غلط ہے۔ یہ نظام ِحکومت کرپٹ سیاستدانوں اور بااثر لوگوں کو کو تحفظ فراہم کرتا رہا ہے۔ اس آئین کے تحت بنائے گئے عدلیہ کے ڈھانچے   نے سستے اور فوری انصاف  پہ مبنی مطلوبہ نتائج فراہم  نہیں کئے۔ ہماری عدالتی تاریخ کوئی قابل فخر نہیں رہی ہے  نا ہی انصاف کا بول بالا نظر آیا ہے۔ جس ریاست  میں عدلیہ  بلا تفریق انصاف پہ مبنی فیصلے کرتی  ہے  ان ریاست کو جنگیں بھی نہیں مٹا سکتیں۔ انصاف ہی تو ریاست کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ اعلی عدلیہ کی تشکیل کا نظام   حکمرانوں کے ذاتی تعلق  اور پسند نا پسند کی بجائے میرٹ  پہ ہونا ضروری ہے تاکہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے اور ترقی کرے۔

ملک میں 1973 ء کے آئین کے ہوتے دوسری مارشل لاء حکومت کے بعد 2008 ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو اس وقت پاکستان کا کل قومی قرض 6432بلین روپے(6ہزار4سو32ارب روپے) تھاجو 2013 ءمیں اس  کے دور حکومت کےختم ہونے پہ 135فیصد تک بڑھ کے 15096بلین روپے(15ہزار 96ارب روپے) یا 52اعشاریہ 4 بلین ڈالرتک ہوچکا تھا۔اس کے بعد آنے والی مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کے اختتام  پہ پاکستان کا کل قومی قرضہ 52اعشاریہ 4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 76اعشاریہ 3بلین ڈالرز ہو گیا ۔اس طرح 2008تا 2018 تک ان 10 سالوں میں ملک کا کل قرضہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ ہو گیا۔ہر نئی آنے والی حکومت  کی  ابتدائی معاشی پالیسی پہ  سابق حکومت کی معاشی پالیسی کے  نتائج کے اثرات بھی لازمی ہوتے ہیں  کیونکہ  ہر نئی حکومت بھی گذشتہ حکومت کے کئے ہوئے ریاستی معاہدات، فیصلوں اور میمورنڈم  کی پابند ہوتی ہے۔ اب اگر پاکستان کے کل قرضوں اور لائی بیلٹیز کا حساب لگائیں  جو جون 2018ء میں تقریباً  29879 بلین روپے تھا اب مارچ 2020ء میں بڑھ کر تقریباً 42،820بلین روپے ہو چکاہے(اسٹیٹ بینک رپورٹ)۔اس میں موجودہ حکومت   پی ٹی  آئی کا قبل از وقت معاشی پالیسی پہ ہوم ورک نا ہونا ، بروقت  معاشی پالیسی نا اپنانے اور  ناقص حکمت عملی  سمیت سابق حکومتوں کی  بے سمتی اور مصلحت پہ مبنی معاشی پالیسی کے بُرے اثرات بھی شامل ہیں ۔

قرآن کے سوا کوئی کلام ، دستور اور کتاب دائمی اور بے عیب نہیں ہے۔کسی ملک کا آئین جواس ملک کے شہریوں نے خود اپنی ضرورت کے تحت بنایا ہوتا ہے وہ غیر الہامی ہونے کی وجہ سے عقل ناقص کی پیداوار ہوتاہے۔ لہذا کسی ملک کا آئین جو تفصیلاً بیان کیا گیا ہو اس پہ نظر ثانی کی

گنجائش ہوتی ہے۔ اس کو مقدس کتابوں کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔  

کیونکہ موجودہ نظام کے تابع رہتے ہوئے مرکزی و صوبائی حکومتیں متاثر کن کارکردگی دیکھانے میں ناکام رہی ہیں۔  بلکہ  اس نظام سے کرپشن ( تمام برائیوں کی جڑ)  کے نئے نئے طریقے  عیاں ہو رہے ہیں  اس لئے  آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کے علاوہ باقی  آرٹیکلز پہ نظر ثانی  کرنا وقت کی ضرورت بنتا جا رہا ہے ۔ جمہوری  طرز حکومت   قائم رکھنے  کی  شرط پہ  موجودہ پارلیمانی نظام حکومت پہ بھی نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاییے۔کامیاب نظام حکومت  ہمیشہ عوام کی خواہش، ضرورت  ، فطرت ، حالات اور زمینی حقائق کے تقاضوں کے تابع ہو تا ہو ہے ناکہ دیگر ممالک میں کسی   خاص نظام کی کامیابی دیکھ کر اس کو اپنے ہاں اپنا لینے سے مطلوبہ نتائج بر آمد  ہونگے۔ اس لئے حکومت کے بنیادی اداروں  مقننہ  ، عدلیہ اور انتظامیہ کے  موجودہ آئینی ڈھانچوں پہ نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔دھاندلی سے پاک انتخابی نظام ہی عوام کے حقیقی نمائندوں کو اوپر لا سکتا ہے  ا سلئے ایک شفاف، قابل قبول اور دھاندلی کے شائبہ سے پاک انتخابی نظام کی اشد ضرورت ہے۔جغرافیائی اعتبار سے  حساس  اور اہم ترین محل وقوع  کیوجہ سے پاکستان کی افواج کی آئینی ذمہ داریوں اور ان کے ریاستی امور میں کردار کے تعین کو واضح کرنا انتہائی ضروری ہے۔ آئین کے آرتیکل 62/63 پہ مکمل عمل درآمد اور احتساب جیسے عمل کو آئین کا حصہ بنانا ضروری  ہے۔عوام کی منشاء اور رضامندی کو کسی خاص اہم ملکی سیاسی مسئلے  کے بارے میں جاننے کے لئے ریفرنڈم  کروانے کی روایت کو فروغ دینا چاہیے مزید عوام کو  ان کے منتخب کردہ  نمائندوں کی کارکردگی کی بنیاد پہ وقت سے پہلے ان کے عوامی عہدہ سے ہٹانے کا طریقہ کار "ری کال " متعارف کروانا چاہیے جیسے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے ویسے ہی اگر کسی حلقہ کی عوام اپنے منتخب کردہ نمائندہ کی کارکردگی سے مطمئن نا ہوں تو اس کو مدت ختم ہونے سے پہلے اس کے عوامی عہدہ سے فارغ کر سکیں۔یہ طریقہ کار بہت سے جمہوری ممالک میں رائج ہو چکا ہے۔ دیگر جدید  ریاستی نظاموں  کی طرح  پاکستان میں بھی ایک ایسا نظام حکومت ، نظام عدالت ، انتظامیہ  بنانے کی ضروت ہے  جس کی بنیاد تقسیم اختیارات پر ہو۔دوسرے اداروں میں مداخلت کئے بغیر ہر ادارہ اپنے عطا کردہ آئینی اختیارات و فرائض میں رہتے ہوتے اپنی کارکردگی احسن طریقہ سے انجام دے ہو جو اسلام کی عظمت، ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے پاکستان کو ایک مضبوط جدید جمہوری نظام حکومت  فراہم کرے  ۔اللہ تعالی پاکستان کو سلامتی و خوشحالی عطا فرمائے امین۔(جاری۔۔)

 نوٹ: آئندہ تحریر میں آئینی لحاظ سے نظام حکومت کی اقسام ، سربراہ  ریاست، مقننہ  ، عدلیہ اور انتظامیہ کے فرائض ،تقسیم اختیارات کا نظام  اور جمہوری پارلیمانی نظام  میں فرق  کے بارے مفصل بات ہو گی۔  

Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

  پاکستان کا قرضہ ختم: (محمد عمران حفیظ) ریکوڈک، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کاقصبہ ہے جس میں 13000 مربع کلومیٹرتک تقریباً 6 بلیئن...