Wednesday, January 15, 2020

پاکستان آرمی ایکٹ ترمیم 2020ء اصل محرک

پاکستان آرمی ایکٹ ترمیم 2020ء اور ہمارا کردار:
(پروفیسر محمد عمران حفیظ ، شعبہ سیاسیات)

پاکستان آرمی ایکٹ ترمیم ۲۰۲۰ء جو کہ پاکستان آرمی ایکٹ ۱۹۵۲میں ترمیم پہ مشتمل ہے جس کے مطابق صدر پاکستان وزیراعظم پاکستان کی تجویز پہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملاز مت میں تین سال تک کی توسیع منظور کر سکتے ہیں۔
ملک میں کرپشن کی وجہ کون ہے؟ آیا عوام ادارں کو کرپٹ کرتی ہے یا ادارے عوام کو کرپٹ کرتے ہیں؟اس بارے دونوں اطراف کے دلائل اپنی  اپنی  جگہ موجودہیں۔ لیکن اس کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کرپٹ سوچ کا  اصل محرک کون ہے۔
جدید دور میں جمہوری ریاستوں کی افواج کے بنیادی فرائض و مقصد، ان کے ریاستی امورمیں شمولیت کی حد، کاروبارِ ریاست اور ملک کی  جمہوریت و سیاست میں ان کے کردار کو اس ریاست کے تحریری آئین ، مضبوط پارلیمانی روایات اور ریاستی قوانین کے ذریعے طے کردیا گیا ہے۔ جس کا بنیادی اصول پارلیمان اور سول اداروں کی بالادستی ہے جسے سول سپر میسی بھی کہا جاتا ہے۔ریاست   کے دیگر اداروں کی طرح افواج کا ادارہ بھی ریاست کے آئین اور قوانین کا پابند اور تابع ہوتا ہے۔جب پارلیمنٹ مضبوط، قابل عمل ، ملکی مفادات پر مبنی اچھی روایات رکھتی ہو اور اس کے اراکین جو عوام کے منتخب کردہ ہوتے ہیں اپنے طے شدہ آئینی فرائض و کردار سے بخوبی آگاہ ہوں تو اس ریاست میں جمہوریت اور سیاست محفوظ  اور پھلتی پھولتی ہے ۔جب پارلیمنٹ اپنے آئینی فرائض سے پہلو تہی اور کوتاہی کرے مثلاً پارلیمنٹ کا کام کاروبار ریاست کے لئے ، اداروں  کی بہترکارکردگی کے  لئے،عوام کی فلاح و بہبود اورآزادی کو محفوظ بنانے کے لئےقانون سازی ہے  جو کہ صرف پارلیمنٹ کی ہی ذمہ داری ہے تو پارلیمنٹ جب اپنا کردار بخوبی احسن ادا نہیں کرتی تو دیگر اداروں کو بھی اپنے طے شدہ بنیادی فرائض اور کردار سے ہٹ کر دوسرے امور میں مداخلت کا جواز مل جاتا ہے ۔
ملک میں جمہوری ، سیاسی اور حکومتی روایات کا پیدا ہونا ، مضبوط ہونا، اور ان روایات پہ عمل پیراں ہونے کی عادات دراصل ملک کی پارلیمنٹ ہی دیتی ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم ۲۰۲۰ء بارے پارلیمنٹ نے اپنا کردار اچھے طریقے سے بر وقت اور اتفاق رائے سے ادا کیا۔ آرمی ایکٹ میں سقم کو دورکرنا اورترمیم منظورکرنا  یہ پارلیمنٹ کی ہی ذمہ داری تھی اور تمام سیاسی جماعتوں نے  اس کو منظور کر کے بہترین پارلیمانی روایات کا آغاز کیاہے۔ اس میں کسی ایک سیاسی جماعت کی  دوسری جماعت پہ نا برتری ، احسان یا اچھائی  ظاہر ہوتی ہے اور نا پارلیمان کا عوام پہ  یا کسی ادارے پہ کوئی احسان ہے، یہ پارلیمان  کی ذمہ داری تھی جو انہوں نے ادا ۔جس ملک میں پارلیمنٹ   اپنا طے شدہ کردار بر وقت اور اتفاق رائے سے اداکرتی ہے وہاں پارلیمنٹ کی روایات مضبوط ہوتی ہیں اور فوج کا سیاست میں کردار محدود ہوتا جاتا ہے اور جب پارلیمنٹ اپنا کردار ادا ناکرے اور خوش گوار روایات قائم نا کرے تو دیگر اداروں کو پارلیمنٹ اور سیاست میں مداخلت  کا موقع مل جاتا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے کام نا کرنے سے وہ ادارے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان آرمی ایکٹ ترمیم۲۰۲۰ء پہ جہا ں پارلیمنٹ نے اچھی روایت کی بنیاد رکھی ہے وہیں عوام اور چند شر پسند عناصر بشمول چند سیاستدان ،صحافی و سوشل میڈیا نے منفی رد عمل دیا ہے۔جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ بجائے کہ عوام، صحافی ، سیاستدان اور میڈیا  سب پارلیمنٹ کے اس اتفاق رائے  اور عمل کو  سراہتے اور اس اچھی روایت پہ  ان کو اخلاقی پشت پناہی فراہم کرتے  شاباش دیتے   لیکن  چند اینٹی آرمی  عناصربغض ملٹری میں  پارلیمنٹ سے منفی کردار اور رکاوٹ کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔  یہ منفی عناصر وہی سوچ  رکھنے والے ہیں  ہے جو ہمیشہ فوج کو سیاست میں اور اداروں میں مداخلت  پہ اکساتے  رہے ہیں ۔یہ سوچ کہیں اورسے  نہیں بلکہ پاکستان کے اندرہی  موجود رہی ہے اور یہ دباوکی صورت میں الیکٹرونک و سوشل میڈیا کیطرف سے پارلیمنٹ پہ آتی رہی ہےلیکن اس بار پارلیمنٹ نے  نہایت سمجھداری سے اس  منفی سوچ کو دباو کے باوجود نظر انداز کر کے بہت اچھاکام کیا  اور ایک اچھی پارلیمانی روایت کا آغاز کیا ہے کہ جس کے تحت ذاتی مفاداتی  سیاست کو ملکی مفادات سے الگ کر دیا ہے اوراب  پارلیمنٹ واحد قانون ساز ادارہ ہونے کی حیثیت سے   اپنے فرائض کو بغیر کسی دباو کے میرٹ پہ ادا کرتا رہے گا۔  پارلیمنٹ کے آرمی ایکٹ ترمیم 2020ء کے  عمل سے  اور اس سے قبل  عدلیہ کے  اس سقم کی نشاندہی   سےیہ بات واضح ہو گئی کہ افواج ان دونوں کے ماتحت ادارہ ہے اوران کو جوابدہ ہے مزید  سول ادارے سپریم ہیں  ۔یہی سول سپرمیسی کی علامت ہے۔پارلیمنٹ نے سول سپر میسی کا کردار ادا کر دیا ہے ، اللہ کرے اب یہ روایت قائم و دائم رہے اور پاکستان میں جمہوریت پھلتی پھولتی رہے اور سیاستدان اپنا پارلیمانی کردار خوش اسلوبی سے بغیر کسی مفاد اور دباو سے ادا کرتے رہیں ۔ تاکہ پاکستان ترقی و خوشحالی پہ گامزن ہو سکے۔آخر پہ پھر وہی سوال کہ  ملک میں کرپشن کی وجہ کون ہے؟اداروں کو کرپٹ کون کرتا ہے؟ آیا عوام ادارں کو کرپٹ کرتی ہے یا ادارے عوام کو کرپٹ کرتے ہیں؟ کرپٹ سوچ کا  اصل محرک کون ہے؟

Friday, January 10, 2020

Great Game:


گریٹ گیم :
( لیکچرار محمد عمران حفیظ شعبہ سیاسیات)


عراق میں کئے گئے اب تک امریکی ملٹری آپریشنز میں سے سب سے خطرناک امریکی اپریشن گذشتہ دنوں کیا گیا بغداد ائیر پورٹ پہ فضائی ملٹری اپریشن تھا جس میں ایران انقلابی گارڈز کے القدوس یونٹ کے سربراہ میجر جنرل قاسیم سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل کئے گئے اہم امریکی ملٹری آپریشن جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ابوبکر البغدادی مارے جا چکے ہیں وہ بھی بہت اہمیت کے حامل تھے لیکن میجر جنرل قاسیم سلیمانی کی ہلاکت سے خطے کی جغرافیائی سیاسی صورتحال پہ بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ قاسیم سلیمانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران نے خطے مین امریکہ اور اسکے اتحادی اسرائیل کے خلاف جو پر تشدد مہم شروع کی ہوئی تھی اسکا سربراہ یہی سلیمانی تھا۔ عرب خطے کی جیو پولیٹیکل گیم میں سب سے اہم کھلاڑی کے طور پہ جنرل سلیمانی نے کردار ادا کئے رکھا اور ایرانی مفادات کا تحفظ قائم رکھا ہوا تھا ۔ جنرل سلیمانی نے ایک مضبوط ریاست لبنان کے اندر حزب اللہ نام سے ایک ملیشیا قائم کی جو کہ ریاست کے اندر ریاست کا تاثر قائم کرچکی ہے اور اس کے پاس خطے کے ممالک میں سے سب سے زیادہ میزائل موجود ہیں اور اس تنطیم کو فنڈز، اسلحہ ، میزائل اور حملہ کے تمام احکامات تہران سے ملتے ہیں ، یہی حزب اللہ جس کو جنرل سلیمانی نے قائم کیا وہ اس خطے میں ایران کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔حزب اللہ لبنان کے کامیاب تجربے کے بعد اسی ماڈل پہ جنرل سلیمانی حزب اللہ عراق، شام اور یمن میں قائم کر رہے تھے تاکہ ایران کی عرب خطے میں بالادستی کا تحفظ ہو سکے۔ عراق میں جنرل سلیمانی کی ملیشیاء نے امریکی اور اتحادیوں کو نتھ ڈالی ہوئی تھی۔ امریکہ اور اسکے اتحادی واقعتاً پریشان تھے جنگ کے ہارنے کا خطرہ ٹرمپ کو محسوس ہو رہا تھا کیونکہ گذشتہ کئی دونوں سے جنرل سلیمانی نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیخلاف عراق میں ایک باقاعدہ شورش اور بغاوت بھرپا کی ہوئی تھی اور خود اس کو لیڈ کرنے اور راہنمائ کے لئے عراق مین موجود تھے اور باقاعدہ حصہ لے رہے تھے ۔جنرل سلیمانی کی القدوس نے اپنے عراقی ملیشیا حزب اللہ کو اسلحہ فراہم کیا تاکہ وہ امریکی و اتحادیون کو نشانہ بنا سکیں ۔ ٹرمپ کی پالیسی ٗ زیادہ سے زیادہ دباوٗ کے تناظر میں اس نے ایران پہ معاشی پابندیاں بھی لگائیں اور ایران ، عراق اور لبنان میں ایران حکومت مخالف ہڑتالیں بھی سپورٹ کیں لیکن جنرل سلیمانی کا خیال تھا کہ جس کے ساتھ مقامی ملیشیاء ہو آخر کار جیت اسی کی ہوتی ہے اور واقعتاً گیم امریکہ کے ہاتھ سے نکل چکی تھی لہذا امریکہ نے یہ حملہ آخری چوائس کے طور پہ کیا کیونکہ اس کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچتا تھا۔ ایران جنرل سلیمانی کے ذریعے عراق میں امریکہ کے خلاف پراکسی وار کو سپورٹ کر رہا تھا۔لیکن اس کو پراکسی وار کھیلنا نہیں ائی اسی لئے امریکی صدر نے ٹوئٹ مین کہا تھا کہ ایران جنگ میں کبھی نہیں جیتا لیلکن مذاکرات پہ کبھی نہیں ہارا۔ دوسرا ایران کو اس خطے میں پراکسی وار اور گوریلا وار کے ماسٹر مائنڈ پاکستان آرمی سے کچھ سیکھنا چاہیے تھا جبکہ مخالف قوت سپر پاور بھی ہو تو۔پاکستان افغانستان کے معاملے میں ایک وسیع تجربہ رکھتا ہے اور پاکستان نے دو سپر پاورز روس اور امریکہ کے خلاف کامیاب پراکسی وارز اور گوریلا وارز کھیلی ہیں۔
مزید یہ سال امریکہ میں انتخابی سال ہے لہذا کوئی غیر معمولی کارنامہ ہی ٹرمپ کو انتخابی مہم میں فائدہ دے سکتا ہے جس سے یہ تاثر امریکی عوام کو جائے کہ امریکی عوام کے تحفظ کے لئے ٹرمپ اخری حد تک جائے گا۔
ذاتی تحریر کیساتھ نیویارک ٹائمزکے آرٹیکل کا حوالہ بھی شامل ہے۔

جمہوریت کا نقصان۝


جمہوریت؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق پینٹاگون نے امریکی صدر کی زیر صدارت اجلاس میں ایران کو عراق میں مداخلت سے روکنے کے لیے صدر کو تین آپشنز دئیے تھے
۱: ایرانی بحری جہاز کو نشانہ بنانا
۲: ایرانی میزائلوں کو تباہ کرنا
۳: ایرانی میجرجنرل کو نشانہ بنانا
پینٹاگون کے مطابق ہمیں توقع نہیں تھی کہ صدر آخری آپشن کا انتخاب کریں گے۔صدر نے تیسرا آپشن لیکر پینٹاگون کو بھی حیران کر دیا اور صدر کو متبادل بھی دئیے گئے لیکن صدر نے اسی آپشن کو فائنل کیا۔ اور حملہ کو لائیو دیکھانے کا حکم دیا۔

کیا ایک جمہوری ریاست کے سربراہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی دوسری ریاست کے مہمان کو میزبان کی سرزمین پہ حق زندگی سے محروم کر دے۔ بالکل نہیں۔ کسی بھی لحاظ یہ بات قابل قبول نہیں اور تمام تر سفارتی ،آداب کے ہوتے ہوئے امریکی صدر کا یہ عمل بہرحال قابل مزمت ہے اور سی لئے عراقی پارلیمنٹ نے اسکے ردعمل کے طور پہ امریکہ اور اتحادی افواج کو عراق سے نکل جانے کا پیغام دے دیا ہے۔

Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

  پاکستان کا قرضہ ختم: (محمد عمران حفیظ) ریکوڈک، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کاقصبہ ہے جس میں 13000 مربع کلومیٹرتک تقریباً 6 بلیئن...