Saturday, January 22, 2022

Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

 پاکستان کا قرضہ ختم:

(محمد عمران حفیظ)
ریکوڈک، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کاقصبہ ہے جس میں 13000 مربع کلومیٹرتک تقریباً 6 بلیئن ٹن کی قیمتی دھاتیں(سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرہ) موجود ہیں۔جو کہ دنیا کا 5واں بڑا قیمتی دھاتوں کا ذخیرہ ہے۔


1993ء میں وزیر اعلی بلوچستان نصیر مینگل اور آسٹریلیا کی کمپنی BHP Billitonکے درمیان ایک معاہدہ ہواجس کے مطابق یہ کپمنی ریکوڈک میں مائننگ کرے گی جن کے نتیجے میں یہاں کے دھاتوں کے ذخائز میں کمپنی کا حصہ 75فیصد ہوگا اور حکومت بلوچستان کا 25فیصد ہوگا اور 2 فیصد رائلٹی دینا طے پایا۔ جو کہ دنیا بھر میں رائج رائلٹی ریلٹ سے انتہائی کم ریٹ تھا۔ اس معاہدے کو ‘Chagai Hills Exploration Joint Venture Agreement’ (CHEJVA) کہتے ہیں۔ بعد اذاں اس کمپنی نے یہ پراجیکٹ ایک چھوٹی کمپنی مکرون کو دے دیا جو کہ کینیڈا۔اسرائیل کی کپمنی تھی۔ آنے والے سالوں میں اس کمپنی کو ٹیتھیان کاپر کپمنی نے خرید لیا۔
2007ء میں ٹیتھیان کاپر کمپنی اور وفاقی حکومت پاکستان میں ان دھاتوں کو نکالنے کا معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت اس کمپنی نے سروے کیا اور 2010ء میں ایک فیزبیلٹی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ریکوڈک میں 21لاکھ ٹن خاؒلص کاپر اور 7962کلو گرام خالص سونا موجود ہے جس کو نکالنے کے لئے 56سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن اس سے قبل 2008ء میں سوسائتی آف جیولوجسٹ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں دیکوڈک میں موجود قیمتی دھاتوں کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا اس کے مطابق 2010 میں ٹیتھیان کاپر کپمنی نے 35فیصد کاپر اور 25فیصد سونا کی مقدارکم بتائی تھی۔مزید یہ کمپنی ان ذخائرکے راء میٹریل کو سمیلٹلز اور ریفائنز(دھات کو خالص حالت میں حاصل کرنے کا عمل) پاکستان کے علاوہ کسی اور دوسرے ملک کرنا چاہتی تھی ۔جو کہ گوادر سے پائپ لائن کے ذریعہ ان راء دھاتوں کو منتقل کرنا تھا۔ فروری 2011 میں جن اس کپمنی نے حکومت پاکستان اور بلوچستان کو مائنگ لیزنگ کا عمل شروع کرنے کے لئے درخواست دی تو متعلقہ حکومتوں نے نومبر 2011ء میں اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اور اعتراض یہ لگایا گیا کہ کپمنی مائننگ پراسیس کا سارا عمل پاکستان کے اندر کرے ، لوکل رائلٹی اور حکومت پاکستان کا حصہ زیادہ کیا جائے( جو کہ معاہدہ کے مطابق اس وقت کل ذخائز کا صرف 25فیصد پاکستان (وفاق اور بلوچستان ) اور 75فیصد کپمنی کو ملنا طے پایا گیا تھا۔) کپمنی نے معاہدہ سے ہٹ کر حکومت پاکستان اور بلوچستان حکومت کے اعتراض کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور بتایا کہ کمپنی نے سروے پہ 220ملین ڈالر(35ارب ڈالر) خرچ کر چکی ہے لہذا اب مرکزی و صوبائی حکومت اس سے انکار نہیں کر سکتی۔ 2012ء اس کپمنی نے حکومت پاکستان کے خلاف ورلڈ بینک کے ایک ثالثی ٹربیونل میں 43۔11بلین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ International Centre for Settlement of Investment Disputes میں دائر کر دیا۔
12 جولائی 2012کو اس ٹربیونل نے حکومت پاکستان پہ 950ارب روہے کا ہرجانہ عائد کر دیا۔ جب یہ کیس ابھی عالمی ٹربیونل میں تھا تو جنوری 2013ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریکوڈک کے معاہدہ کو یہ کہہ کر کینسل کر دیا کہ CHEJVAمعاہدہ کے تحت ٹیتھیان کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ ریکوڈک مین مائنگ شروع کرے۔ جولائی 2017ء میں عالمی ثالٹی تربیونل نے حکومت پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا اور تقریباً 10 ارب ڈالر کا ہرجانہ عائد کیا۔ 2013ء سے لیکر 2018 تک حکومت پاکستان نے اس کیس پہ تقریباً ساڑھے پانچ ارب روپے کا خرچہ کیا اور حاصل کچھ نا ہوا بلکہ اس کمپنی نے ہرجانہ ادا نا کرنے کی صورت مین حکومت پاکستان کے بیرون ملک اثاثے منجمند کرنے کی درخواست دی جو کہ منظور ہو گئی اور پی آئی اے کا ہوٹل اور فرانس میں ایک پاکستانی ہوٹل سمیت دنیا بھر میں حکومت پاکستان کے اثاثے حاصل کرنے کی قانونی کاروائی کی اور حاصل کر کرلئے ۔یہ تھی ریکوڈک کی کہانی کا پہلا فیز ۔
دوسرا فیز پی تی آئی کی حکومت آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ آئندہ ماہ فروری مین اس سلسلے میں ایک بڑا قومی بریک تھرو ہونے والا ہے۔ موجودہ حکومت نے قانونی چارہ جوئی مین ضائع ہوئے قومی خزانے کے اربوں روپے کو روکنے ، ہرجانہ کی رقم کو معاف کروانے، ضبط شدہ حکومت پاکستان کے اثاثے واپس لینے کے لئے اس کمپنی ٹیتھیان سے ایک قومی مفاد پر مبنی نیا معاہدہ کرنے کے لئے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کر لی ہے۔جو ان شا ءاللہ آئندہ ماہ منظر عام پہ آ جائے گا۔رپورٹ کے مطابق اس معاہدہ میں حکومت پاکستان پہ عائد ہرجانہ ختم ، ضبط شدہ قومی اثاثے واپس اور مائننگ کی صورت میں قیمتی دھاتوں میں حصہ 50/50فیصد طے ہوا ہے جو کہ اس سے قبل 25/75فیصد تھا۔اس طرح پاکستان صرف ریکوڈک میں سے ملنے والے خزانے کا 50فیصد کا مالک ہوجائے گا۔ اور حکومت پاکستان کی انویستمنٹ اور خرچہ اس مائننگ میں زیرو ہوگا۔ اس کے بعد سینڈک کی باری آئے گی۔ اس معاہدے کو کروانے میں پاکستان کی سول و ملٹری قیادت نے انتہائی بھرپور پیشہ وارانہ مخلصانہ کوشش کی ہے اور پاکستان کے مفاد کو اولین رکھا ہے۔
آنے والا وقت ان شاء اللہ پاکستان کا ہوگا۔ اس خزانے سے حاصل شدہ قیمتی دھاتوں سے پاکستان کا نا صرف قرضہ اترے گا بلکہ پاکستان کی قسمت بدل جائے گی اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ دعا ہے کہ جس جس نے اس ارض پاک کو ذاتی مفاد کے لئے معاہدے کر کے نقصان پہنچایا ہے اللہ تعالی ان سب سے حساب لے اور جنہوں نے مخلص ہوکر اس ارض پاک کی خدمت کی ہے ان کی دنیا و آخرت روشن کر دے۔

Friday, September 24, 2021

CASA-1000 (Game Changer)


کاسا-۱۰۰۰: پاکستان کی نئی علاقائی اسٹریٹیجک پالیسی
CASA-1000(Central Asia South Asia)
(محمدعمران حفیظ)
گیم چینجرکاسا-۱۰۰۰ وسطی ایشیاءاور جنوبی ایشاء کے کل چار ممالک کے درمیان پاور ٹرانسمیشن اینڈ ٹریڈ پراجیکٹ کا ایک منصوبہ ہے۔
حکومت پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے دو دن قبل ایک سیمنار”پاکستان فیوچر ڈائریکشن “ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے اس جغرافیائی محل وقوع کو جیوپولیٹیکل سے جیو اکنامک محل وقوع کے طور پر استعمال کر نے کی پالیسی پہ کام کر رہا ہے جس کے تین اہم ستون ہیں۔
پہلا ستون: کنیکٹیویٹی ہے، ہم جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں سے ہم جنوب، شمال، مغربی دنیا اور مشرق سے خود کو مربوط رکھ سکتے ہیں اور پھر ہم اپنے اس محل وقوع کو استعمال کر سکتے ہیں۔
دوسرا ستو ن دنیا سے شراکت داریاں قائم کرناہے اور تیسرا سب سے اہم ستون اندرونی اور علاقائی امن و سلامتی قائم کرنا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جس بات کو بیان کیا ہے یہی بات موجودہ دور میں یورپی کی ترقی ، امن و خوشحالی کی بنیاد ہے۔ ایک خطے کے ممالک کی آپس میں آسان اور سستے ترین رابطے ہونا ضروری ہیں جس کو ہم کنیکٹیوئٹی کہتے ہیں۔ دوسرا شراکت داری یعنی تعاون ،حصہ داری اور لین دین کرنا ہے۔ خطے کی خوشحالی کے لئے خطے میں کسی ایک ملک کے پاس وافر وسائل کا دوسرے ملک کو فائدہ ہونا مشترکہ ترقی کی ضمانت ہے۔ اسی سلسلے میں ہمارے خطے میں بجلی کی دوطرفہ ترسیل کا ایک مشترکہ منصوبہ زیر تعمیر ہے جسکا نام ہے کاسا۱۰۰۰ (CASA-1000)۔ اس میں سنٹرل ایشیا کے ممالک( تاجکستان، کرغستان) اور جنوبی ایشیاء کے ممالک (افغانستان، پاکستان) کے بجلی پاور سسٹمز آپس میں انٹر کنیکٹ ہونگے۔ یہ منصوبہ جس کی لاگت تقریباً 1.2بلین امریکی ڈالریا 1126.50ملین امریکی ڈالر ہے اس کو ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دنیا کے اہم ترین مالیاتی بین الاقوامی ادارے فنانس کر رہے ہیں۔یہ ایک پاور ٹرانسمیشن اینڈ ٹریڈ پراجیکٹ ہے ۔ اس منصوبے کے تین اہم حصے ہیں جن کی منصوبہ بندی پہ کام مکمل ہوچکا ہے۔ ۱-ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کی تعمیر ۲-ٹینیکل اسسٹنس اینڈ پراجیکٹ ایمپلی مینٹیشن ۳-ریونیو مینجمنٹ/فنانس ڈیپارٹمنٹ۔ یہ منصوبہ پاکستان کی روز بروز بڑھتی ہوئی بجلی کی ضرورت کو پورا کرے گا اور پاکستان کو 1300میگا وواٹ بجلی کی فروخت و ترسیل کرے گا۔ اس منصوبے کے ماسٹر ایگریمنٹ کے تحت کاسا۱۰۰۰پراجیکٹ گرمیوں کے موسم (مئی تا ستمبر) میں پاکستان کو بجلی سپلائی کرے گا اور باقی مہینوں (اکتوبر تا اپریل) میں ان ممالک کو Open Access Provision کے تحت بجلی کے استعمال کرنے کی چوائس ہوگی۔(مطلب ضرورت کے تحت جتنی بجلی چاہیے ہو گی استعمال کریں اور ادائیگی کریں) اس سے پاکستان کو سستی بجلی ملنے سے سرکلر ڈیڈ سے چھٹکارا ملے گا، بجٹ خسارہ کم ہوگا، آئی پی پیز سے جان چھوٹے گی اور خطے کے ممالک میں آپس میں رابطہ و شراکت داری بڑھے گی۔
یہ منصوبہ28/اگست /2018ء سے شروع ہوچکا ہے جس کی تمام طرح کی ضروریات بشمول تعمیراتی میٹریل، انجینرنگ سروسز اور سازوسامان کی خریدو فروخت مکمل ہوچکی اور یہ منصوبہ 31مارچ 2023تک مکمل ہوجائے گا۔

Wednesday, April 14, 2021

اسلام ہی کیوں؟


 

دین اسلام ہی کیوں؟

(پروفیسر محمد عمران حفیظ)

اللہ تعالی سے بڑھ کر ارتقائی نظام کا بنانے والا، عمل کرنے اور سمجھانے والا کوئی نہیں ہے۔کائنات کو بنانے سے لیکر آج تک کی اس کی ساری اشکلال ارتقائی نظام سے گزر کر یہاں پہنچی ہیں۔ بہتر سے بہتر کام کرنا، اور بہتری کیطرف گامزن رہنا ارتقائی نظام کا اصول ہوتا ہے۔ ہر کام میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے اسی کو ارتقائی نظام اور اصول کہتے ہیں۔ مسلسل تبدیلی جو کہ بہتری کے لئے ہو کسی نظام کا ارتقائی پراسیس کہلاتا ہے۔ 

اس کائنات کے بنانے والے(اللہ) نے اس کائنات کو اسکی منزل/ انجام ( قیامت)کیطرف پہنچانے کے لیے اس کائنات کو ارتقائی عمل سے گزاراہے۔ 

اللہ نے اپنی پہچان اور خود کے وجود بارے بتانے کے لئے، اس دنیا میں رہنے کے اصول (شریعت) بتانے کے لئے ہر دور میں موجود انسان کی سوچ کی وسعت/گنجائش/قابلیت/کیلیبر کے مطابق انہی میں سے معتبر انسان کو بطور ایک نبی مبعوث  فرمایا تاکہ لوگ اس کی بات کو آسانی سمجھ سکیں(Compatibly)۔اللہ تعالی نے اپنی پہچان اور نبوت عطا کرنے کے عمل میں بھی کائنات کا بنیادی اصول ارتقائی طریقہ (بہتر سے بہتر کرنا) لاگو کیا۔ ہر نبی اپنے دور اور قوم کی ذہنی قابلیت کے مطابق اللہ کا پیغام اور شریعت لایا۔تورات، زبور، انجیل ، یہودیت اور عیسائیت اللہ کے پیغام تھے جو مختلف ادوار میں اس دور کی انسانی سوچ کے اور ضرورت کیمطابق اللہ نے نازل فرمائے۔

دین اسلام اسی اللہ کا دنیا کے انسانوں کے لئے جدید پیغام(Latest version) ہے جو عرب جیسی قوم پہ ۵۷۱ء میں انسٹال ہوا لیکن اتنا جامع پلان/سافٹ  تھا کہ آج تک اس کو مکمل طور پہ کوئی عام انسان سمجھ نہیں سکا لیکن بہتری کی کوشش میں ہے۔

لہذا موجودہ دور کے انسان کی یہ فطرت کہ وہ ہر چیز کا latestماڈل حاصل کرنا چاہتا ہے چاہیے وہ کمپیوٹر ہو اسکی ونڈو ہو ، موبائل ہو یا اسکا سافٹ وئیر ہو یا گاڑی جہاز کا ماڈل۔ بہترسے بہتر چیز اور علم کو اپنانا ہی اصل میں سمجھ دار انسان کی نشانی ہے ۔ لہذا الہامی ادیان کا جدید ترین ماڈل /ورژن “اسلام “ ایک حتمی اور جامع دین بذریعہ رسول پاک  نازل ہو چکا ہے ۔ جو مذاہب اس سے پہلے آئے ان میں تبدیلی کر کے بہتری لاکر، جدید دور کی ضروریات کے مطابق اسکو نازل کر دیا گیا ہے لہذا تقابلی مطالعہ سے اس کی خوبی سمجھ کر اس کو اپنا لیں تاکہ آپ کو فخر ہو کہ آپ جدید دور کے مطابق Compatibleہیں۔ ادیان کے اس جدید ورژن (اسلام) کا انکار کر کے آپ خود کو نقصان میں ڈالیں گے کیونکہ آج کے دور کی تمام ضروریات والے سارے فنکشن صرف اسی کے اندر ہیں ۔ صرف سمجھانے کے لیے نا کہ موازنہ کے لئےمثال دے رہا ہوں کہ آج کے دور میں  سوشل نیٹ ورکنگ کا تصور فیس بک ، واٹس ایپ ، ٹوئیٹر اور دیگر ایسے سافٹ وئیرزکے بغیر ممکن ہی نہیں اور یہ سافٹ وئیرز بنانے والے بھی ان کے روزانہ نئے اپ ڈیٹ ورژن بہتر اضافی خصوصیات کیساتھ یورزر کو آفر کرتے ہیں اور جو یوزر اپنے سافٹ وئیر کو اپ ڈیٹ نا کرے وہ اپنے سافٹ وئیر کے استعمال میں نئے فیچرز سے محروم رہ جاتا ہے اور دنیا بھر کے یوزر کے مطابق نقصان میں ہوتا ہے۔بلکہ کمیونیکیشن ہی نہیں کر پاتا۔ 

کائنات کے مالک نے بھی انسان کو اپنے ساتھ کمیونیکیٹ کروانے کے لئے الہامی مذاہب کا Latest versionاسلام کیصورت آفر کر دیا ہے۔اس کے بعد کوئی الہامی دین، کےاب اور رسول نہیں آئے گا لہذا خود کو اپ ڈیٹ کریں۔

اختلاف رائے شرط ہے۔یہ تحریر معقول صورت میں میرے ذاتی خیالات پہ مبنی ہے۔ 

شکریہ

Monday, July 13, 2020

پاکستان میں نیا نظام حکومت؟

نظام حکومت میں تبدیلی یا اصلاحات ؟

(پروفیسر محمد عمران  حفیظ)

دنیامیں اس وقت کل 195ممالک ہیں جن میں  سے مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کی تعداد 50 ہے ۔لیکن مسلم  حکومت  والےممالک کی تعداد 45ہے ۔ ان 45ممالک میں صرف 4ممالک  کے نام اسلامی جمہوریہ ہیں جن میں پاکستان ، افغانستان ، ایران اور موریطانیہ  شامل ہیں۔آئین کسی ریاست کی روح ہوتا ہے ۔حقیقی آئین ہی کسی ریاست کی عوام کی رضامندی اور خوشنودی  کا مظہر ہوتا ہے جس کے تحت کسی ریاست کا نظام حکومت چلایا جاتا ہے۔جدید دور میں آئین ہی  کسی ریاست کی عوام کی ترجمانی کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ بغیر آئین  و قانون کے کوئی ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی کیونکہ آئین ہی واحد متفقہ دستاویز ہوتی ہے جس کے ذریعے کسی ریاست کے تمام اداروں کی تشکیل ، ساخت اور فرائض  وحدود کا تعین کر دیا جاتا ہے۔آئین پر عمل درآمد ہی اس ریاست کی بقاء کی ضامن ہوتی ہے۔  پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے آئین 1973 ء  میں "مسلم" اور" غیر مسلم" کی تعریف کی گئی ہےجس کی رو سے یہ بتایا گیا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم ۔ آئین پاکستان 1973ء کے حصہ دو ازدہم کے باب نمبر 5"توضیح "میں درج آئین کے آرٹیکل 260"تعریفات" کی ذیلی دفعہ 3(الف، ب)کے مطابق  قادیانی  گروپ، لاہوری گروپ اور احمد گروپ سمیت کوئی بھی گروپ جو کسی بھی مفہوم یا تشریح  کے  ذریعے سے ختم نبوتﷺ کا انکاری ہے وہ غیر مسلم ہوگا۔آئین کے اس آرٹیکل کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت ﷺ مسلمان  ہونے کی لازمی شرط طے ہو گئی ہے اور الحمد اللہ مملکتِ خدادار پاکستان کے غیور مسلمان اس عقیدہ کی حفاظت پہ پہرا دے رہے ہیں۔آئین کے اسی آرٹیکل کی وجہ سے یہ آئین 1973ء متفقہ طور پہ  منظور ہوگیا تھا اور آج تک مقدس تسلیم کیا جاتا ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ یہ آرٹیکل اس آئین کی روح ہے تو بے جا  نہ ہو گا۔آئیں  ریاست میں اسی آئین کی باقی دفعات  پہ عمل درآمد کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں ۔کیونکہ اب  گڈ گورننس کا تصور بھی جدیدریاستی نظام حکومت کا اہم موضوع بن چکا ہے اور گڈ گورننس آئین پہ عمل درآمد کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔

1973ء کے آئین پاکستان میں وضع کردہ  پارلیمانی جمہوری نظام حکومت کیا 21 ویں صدی میں جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق ضروریات پوری کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے اسی  آئینی نظام کے تحت پاکستان کو چلانے کے کے نتائج پہ غور کرنا ہوگا کہ آیا جو نظام حکومت 1973ء میں متفقہ طور پہ طے ہوا تھا اس کو اپنانے کے بعد نتائج کیا ملے؟ تو نتائج جان لیں کہ 1973ء سے لیکر 2020ء تک 47 سال ہو چکے ہیں اس دوران 1977 تا 1988(تقریباً 11 سال) اور 1999تا2008ء (9تقریباً سال)کل 20 سال تک ملک میں مارشل لاء لگا رہا اور غیر جمہوری قوتوں نے ملک کے اس آئین 1973ء کومتعددبارمعطل کیا۔باقی 27 سالوں میں سیاسی جمہوری پارٹیوں کی  8 بار حکومتیں بدلیں جس دوران 14 وزرائے اعظم بدلے گئے۔ جمہوری دورِ حکومت کے 27 سالوں میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے 23 سال حکومت کی جن میں پاکستان مسلم لیگ نے10سال 1ماہ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے تقریباً 13سال5ماہ حکومت کی ۔کیونکہ جمہوری سیاسی حکومتیں عوام کی نمائندہ حکومتیں ہوتیں ہیں لہذا ان پہ عوام کی تربیت کے لحاظ سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عوام کی نمائندہ حکومت ہونے کی وجہ سے عوام میں سیاسی و معاشرتی  اخلاقیات اور اقدار کا تعین کرنا انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اخلاقیات سے مراد غلط اور صحیح ، اچھے اور برے کی پہچان کرنا ہے ۔ وعدہ خلافی ، جھوٹ، کرپشن ، مفادپرستی، بد عنوانی ، رشوت خوری، ناپ تول میں کمی   اور ناجائز اثاثے بنانے کی  حوصلہ شکنی  کرنا  عوامی حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے  ان دونوں جمہوری سیاسی جماعتوں کی قیادت پہ سنگین نوعیت کی کرپشن کے الزامات لگے کیونکہ ان جماعتوں کی قیادت اور سیاسی راہنماؤں کے اثاثوں میں سیاست میں آنے کے بعد غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا لیکن عام آدمی کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ بہتری نا آ سکی۔  اس غیر واضح تکثیری انتظامیہ پہ مشتمل نظام حکومت میں پاکستان کے تقریبا تمام ریاستی اداروں میں میرٹ سے ہٹ کر سیاسی بھرتیاں ہوئیں جس سے انتظامیہ اور عدلیہ سمیت تمام  ادارے کرپٹ ہوئے   جن میں پولیس اور مالیاتی ادارے   سر فہرست ہیں جو ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے بے بس ہو گئے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے لگے۔میرٹ نا ہونے کیوجہ سے بہت بڑی تعداد میں ملک کا ذہین دماغ بیرون ملک شفٹ ہوا جس میں ڈاکٹرز، انجینیرز، پروفیسرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے پیشہ ور شامل تھے۔ اس سیاسی نظام نے صرف چند خاندانوں کو واضح فائدہ پہنچایا۔ ملک کا تعلیمی اور صحت کا ڈھانچہ انتہائی کمزور ہوا۔انسانی ترقی(صحت ، تعلیم)  پہ خرچ کرنے کی بجائے  انفراسٹرکچر سڑکیں پل بنانے پہ پیسہ لگایاگیا۔ ملک کے اندر سیاسی و معاشرتی اخلاقیات کے معیارات بدل گئے جو کہ اس وقت کے حکمران طبقوں نے رائج کئے  جس سے عوام کے اندر اچھے ، بُرے اور غلط ،صحیح کی پہچان کی اہلیت بُری طرح متاثر ہوئی ۔ 1973 ء کے آئین کے تحت اپنائے گئے حکومتی نظام کا کمال دیکھیں کے "مفادات کا تصادم" کلیش آف انٹرسٹ کا اصول /قانون نا ہونے کیوجہ سے اس سے ملک کے اندر کاروباری کارٹلز نے جنم لیا۔جس سے ریاستی حکومت کے ساتھ متوازی مگر باطنی انداز میں مافیا اور کارپوریٹ طرز حکومت چلتی رہی۔انہی کاروباری کارٹلز کے سربراہ حکومت میں اور مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر اپنی مرضی کی قانونی سازی اور اور پالیسیاں بنواتے رہے ہیں جس کا ثبوت شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ اور گندم انکوائری کمیشن رپورٹ ہیں ۔ان کو آپ پڑھ کر دیکھ لیں آپ ان چھپی ہوئی متوازی کارٹلز کی حکومت سے انکار نہیں کر سکیں گے۔

جہاں ریاست کمزور ہوتی ہے وہیں خاندانی برادری کا نظام مضبوط ہوتا ہے۔ 1973ء کے آئین میں چند دفعات نکال کر  باقی آئین نے ریاست کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا اور ملک کے اندر شخصیات، قوموں، صوبائیت اور برادریوں پہ مبنی تفریقی نظام کو مضبوط کیا۔جس سے ملک کے اندر بہت سے علاقوں میں احساس  محرومی نے جنم لیا جس کی مثال جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے کی تحریک اور بلوچستان کے مسائل ہیں۔

1973ء کے آئین کے تحت رائج انتخابات کا نظام انتہائی کرپٹ، غیر واضح اور غیر معیاری ثابت ہوا ہے۔ جس میں حلقہ بندی کی دھاندلی سے لے کر انتخابات کی دھاندلی تک ہر قسم کی دھاندلی کے 100فیصد چانسز ہوتے ہیں جس کا فائدہ بالا سیاسی جماعتوں نے بہت اچھی طرح اٹھایا۔  اس آئین کے تحت ہونے والے کوئی ایک انتخابات بھی متفقہ طور پہ شفاف نہیں مانے گئے اور نا ہی اس نظام کو بہتر کرنے یا بدلنے کی کوشش کی گئی جس کی دلیل 2014ء میں دھاندلی کمیشن رپورٹ ہے۔

یہ آئین پاکستان کی عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کے لئے ایک آلہ کے طور پہ استعمال ہواہے اس کا ثبوت اس ملک میں ایک تعلیمی نصاب کا رائج نا ہونا ہے۔ اس آئین میں درج حکمت عملی کے اصولوں کے ذریعے مختلف طبقات نے جنم لیا جنہوں نے بعد ازاں ملک کو فرقہ بندی کی صورت میں شدید نقصان پہنچایا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل  اس خطہ کا برطانیہ کی کالونی ہونے کے ناطے وہاں کا پارلیمانی جمہوری نظام حکومت  ی بغیر سوچے سمجھے 1973ء کے آئین کے ذریعے یہاں اپنانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ بُری طرح ناکام ہو چکا ہے جس کی دلیل پاکستان کی معیشیت کی تباہی ہے۔ اس نظام نے مفاد پرست سیاستدان پیدا کئے جن کے پاس ویژن کی شدید کمی رہی اور وہ پاکستان کو محض حکومت کرنے اور لوٹنے کا اڈا سمجھ کر یہاں آتے رہے اور واردات کرنے کے بعد واپس برطانیہ جاتے رہے ہیں۔ملک کے قیمتی اثاثوں کو گروی رکھ کر ذاتی اثاثوں کو بیرون ملک اپنی اولاد کے نام پہ بنایا گیا۔

تمام جدید ریاستوں اور عالمی اداروں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کرپشن ہی دہشت گردی کا باعث بنتی ہے ۔دہشت گردی  دراصل کرپشن کی انتہائی شکل ہے۔ایف اے ٹی ایف کا ادارہ اور اس کے اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جو ممالک متواتر سنگین دہشت گردی کا شکار ہوئے یا جہاں دہشت گروں نے غیر ریاستی عناصر کی حیثیت سے  جنم لیا وہاں پہلے کرپشن، منی لانڈرنگ  اور بھتہ خوری شروع ہوئی۔گذشتہ ادوار میں پاکستان نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لئے کوئی قابل قبول اقدامات نہیں کئے جس کا ثبوت پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہونا ہے۔مزیدعدلیہ سمیت کوئی ادارہ  پاکستان کو لوٹنے اور کرپشن کرنے والوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ  نظام کی بنیاد ہی غلط ہے۔ یہ نظام ِحکومت کرپٹ سیاستدانوں اور بااثر لوگوں کو کو تحفظ فراہم کرتا رہا ہے۔ اس آئین کے تحت بنائے گئے عدلیہ کے ڈھانچے   نے سستے اور فوری انصاف  پہ مبنی مطلوبہ نتائج فراہم  نہیں کئے۔ ہماری عدالتی تاریخ کوئی قابل فخر نہیں رہی ہے  نا ہی انصاف کا بول بالا نظر آیا ہے۔ جس ریاست  میں عدلیہ  بلا تفریق انصاف پہ مبنی فیصلے کرتی  ہے  ان ریاست کو جنگیں بھی نہیں مٹا سکتیں۔ انصاف ہی تو ریاست کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ اعلی عدلیہ کی تشکیل کا نظام   حکمرانوں کے ذاتی تعلق  اور پسند نا پسند کی بجائے میرٹ  پہ ہونا ضروری ہے تاکہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے اور ترقی کرے۔

ملک میں 1973 ء کے آئین کے ہوتے دوسری مارشل لاء حکومت کے بعد 2008 ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو اس وقت پاکستان کا کل قومی قرض 6432بلین روپے(6ہزار4سو32ارب روپے) تھاجو 2013 ءمیں اس  کے دور حکومت کےختم ہونے پہ 135فیصد تک بڑھ کے 15096بلین روپے(15ہزار 96ارب روپے) یا 52اعشاریہ 4 بلین ڈالرتک ہوچکا تھا۔اس کے بعد آنے والی مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کے اختتام  پہ پاکستان کا کل قومی قرضہ 52اعشاریہ 4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 76اعشاریہ 3بلین ڈالرز ہو گیا ۔اس طرح 2008تا 2018 تک ان 10 سالوں میں ملک کا کل قرضہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ ہو گیا۔ہر نئی آنے والی حکومت  کی  ابتدائی معاشی پالیسی پہ  سابق حکومت کی معاشی پالیسی کے  نتائج کے اثرات بھی لازمی ہوتے ہیں  کیونکہ  ہر نئی حکومت بھی گذشتہ حکومت کے کئے ہوئے ریاستی معاہدات، فیصلوں اور میمورنڈم  کی پابند ہوتی ہے۔ اب اگر پاکستان کے کل قرضوں اور لائی بیلٹیز کا حساب لگائیں  جو جون 2018ء میں تقریباً  29879 بلین روپے تھا اب مارچ 2020ء میں بڑھ کر تقریباً 42،820بلین روپے ہو چکاہے(اسٹیٹ بینک رپورٹ)۔اس میں موجودہ حکومت   پی ٹی  آئی کا قبل از وقت معاشی پالیسی پہ ہوم ورک نا ہونا ، بروقت  معاشی پالیسی نا اپنانے اور  ناقص حکمت عملی  سمیت سابق حکومتوں کی  بے سمتی اور مصلحت پہ مبنی معاشی پالیسی کے بُرے اثرات بھی شامل ہیں ۔

قرآن کے سوا کوئی کلام ، دستور اور کتاب دائمی اور بے عیب نہیں ہے۔کسی ملک کا آئین جواس ملک کے شہریوں نے خود اپنی ضرورت کے تحت بنایا ہوتا ہے وہ غیر الہامی ہونے کی وجہ سے عقل ناقص کی پیداوار ہوتاہے۔ لہذا کسی ملک کا آئین جو تفصیلاً بیان کیا گیا ہو اس پہ نظر ثانی کی

گنجائش ہوتی ہے۔ اس کو مقدس کتابوں کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔  

کیونکہ موجودہ نظام کے تابع رہتے ہوئے مرکزی و صوبائی حکومتیں متاثر کن کارکردگی دیکھانے میں ناکام رہی ہیں۔  بلکہ  اس نظام سے کرپشن ( تمام برائیوں کی جڑ)  کے نئے نئے طریقے  عیاں ہو رہے ہیں  اس لئے  آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کے علاوہ باقی  آرٹیکلز پہ نظر ثانی  کرنا وقت کی ضرورت بنتا جا رہا ہے ۔ جمہوری  طرز حکومت   قائم رکھنے  کی  شرط پہ  موجودہ پارلیمانی نظام حکومت پہ بھی نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاییے۔کامیاب نظام حکومت  ہمیشہ عوام کی خواہش، ضرورت  ، فطرت ، حالات اور زمینی حقائق کے تقاضوں کے تابع ہو تا ہو ہے ناکہ دیگر ممالک میں کسی   خاص نظام کی کامیابی دیکھ کر اس کو اپنے ہاں اپنا لینے سے مطلوبہ نتائج بر آمد  ہونگے۔ اس لئے حکومت کے بنیادی اداروں  مقننہ  ، عدلیہ اور انتظامیہ کے  موجودہ آئینی ڈھانچوں پہ نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔دھاندلی سے پاک انتخابی نظام ہی عوام کے حقیقی نمائندوں کو اوپر لا سکتا ہے  ا سلئے ایک شفاف، قابل قبول اور دھاندلی کے شائبہ سے پاک انتخابی نظام کی اشد ضرورت ہے۔جغرافیائی اعتبار سے  حساس  اور اہم ترین محل وقوع  کیوجہ سے پاکستان کی افواج کی آئینی ذمہ داریوں اور ان کے ریاستی امور میں کردار کے تعین کو واضح کرنا انتہائی ضروری ہے۔ آئین کے آرتیکل 62/63 پہ مکمل عمل درآمد اور احتساب جیسے عمل کو آئین کا حصہ بنانا ضروری  ہے۔عوام کی منشاء اور رضامندی کو کسی خاص اہم ملکی سیاسی مسئلے  کے بارے میں جاننے کے لئے ریفرنڈم  کروانے کی روایت کو فروغ دینا چاہیے مزید عوام کو  ان کے منتخب کردہ  نمائندوں کی کارکردگی کی بنیاد پہ وقت سے پہلے ان کے عوامی عہدہ سے ہٹانے کا طریقہ کار "ری کال " متعارف کروانا چاہیے جیسے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے ویسے ہی اگر کسی حلقہ کی عوام اپنے منتخب کردہ نمائندہ کی کارکردگی سے مطمئن نا ہوں تو اس کو مدت ختم ہونے سے پہلے اس کے عوامی عہدہ سے فارغ کر سکیں۔یہ طریقہ کار بہت سے جمہوری ممالک میں رائج ہو چکا ہے۔ دیگر جدید  ریاستی نظاموں  کی طرح  پاکستان میں بھی ایک ایسا نظام حکومت ، نظام عدالت ، انتظامیہ  بنانے کی ضروت ہے  جس کی بنیاد تقسیم اختیارات پر ہو۔دوسرے اداروں میں مداخلت کئے بغیر ہر ادارہ اپنے عطا کردہ آئینی اختیارات و فرائض میں رہتے ہوتے اپنی کارکردگی احسن طریقہ سے انجام دے ہو جو اسلام کی عظمت، ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے پاکستان کو ایک مضبوط جدید جمہوری نظام حکومت  فراہم کرے  ۔اللہ تعالی پاکستان کو سلامتی و خوشحالی عطا فرمائے امین۔(جاری۔۔)

 نوٹ: آئندہ تحریر میں آئینی لحاظ سے نظام حکومت کی اقسام ، سربراہ  ریاست، مقننہ  ، عدلیہ اور انتظامیہ کے فرائض ،تقسیم اختیارات کا نظام  اور جمہوری پارلیمانی نظام  میں فرق  کے بارے مفصل بات ہو گی۔  

Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

  پاکستان کا قرضہ ختم: (محمد عمران حفیظ) ریکوڈک، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کاقصبہ ہے جس میں 13000 مربع کلومیٹرتک تقریباً 6 بلیئن...