Communication Gap

 Communication Gap 


کمیونیکشن گیپ:
(Part-1)
ایک گھر میں رہتے ہوئے آپس میں بات چیت کرنے کے باوجود خون کے رشتوں میں وہ انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ نہیں ہو پاتی جو ایک آئیڈیل خاندان کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
آپ کی بات کو آپ کے قریبی رشتے ویسا نہیں سمجھتے جیسا آپ سمجھانا یا کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ بات کے سمجھنے کے اس فرق کوکمیونیکیشن گیپ کہتے ہیں۔
یہ کمیونیکشن گیپ آپ کے اور آپ کے والد کے درمیان ہو سکتا ہے اسی طرح یہ گیپ آپ کے اور آپکی والدہ ، آپ کے اور آپکے بھائی یا بہن (دیگر رشتے) بلکہ میاں بیوی کے درمیان بھی ہوسکتا ہے۔
اس کمیونیکشن گیپ کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کو کیسے کم/ختم کیا جا سکتا ہے؟ ان دو بنیادی سوالات کا جواب جانناضروری ہے۔
پہلی وجہ ذیل میں دی گئی نسلوں کی سوچ میں فرق ہے ، جس کو کم کرنا بہت ضروری ہے:
یہاں مختلف نسلوں کو آسان اور تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے:
1. The Lost Generation (1883-1900)
یہ وہ لوگ تھے جو پہلی جنگِ عظیم کے دوران جوان ہوئے۔ یہ ایک مشکل دور تھا جس میں جنگ اور تباہی نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ اس کے بعد “شاندار بیسویں دہائی” کا دور آیا، جہاں موسیقی، فیشن اور نئی معاشرتی تبدیلیاں سامنے آئیں۔
2. The Greatest Generation (1901-1927)
یہ نسل بڑی مشکلات کے دور میں زندہ رہی، جیسے عظیم کساد بازاری، جب دنیا بھر میں غربت اور بے روزگاری کا سامنا تھا۔ اس کے بعد، دوسری جنگِ عظیم میں انہوں نے سخت محنت اور قربانیوں کے ذریعے دنیا کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد کی۔
3. The Silent Generation (1928-1945)
یہ لوگ اپنی خاموشی، وفاداری اور اصولوں کی پاسداری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو بہت منظم رکھا اور حکام اور روایات کا احترام کیا۔ یہ نسل بہت زیادہ صبر اور استقامت کی علامت ہے۔
4. The Baby Boomer Generation (1946-1964)
یہ نسل دوسری جنگِ عظیم کے بعد پیدا ہوئی، جب دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اس وقت بڑی سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں ہوئیں، جیسے کہ خواتین کے حقوق کی تحریک اور نئی موسیقی اور طرزِ زندگی کا آغاز۔
5. Generation X (1965-1980)
یہ نسل ایسے دور میں پلی بڑھی جب دنیا میں بڑی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا آغاز ہو رہا تھا، اور سماجی اور معاشی نظام میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔ یہ لوگ زیادہ آزاد اور حقیقت پسند ہوتے ہیں۔
6. The Millennial Generation (1981-1996)
یہ نسل ٹیکنالوجی کے ساتھ پروان چڑھی، جیسے موبائل فون اور انٹرنیٹ۔ یہ لوگ مختلف کلچرز اور خیالات کو اپنانے میں ماہر ہیں اور تنوع اور برداشت کو اہمیت دیتے ہیں۔
7. Generation Z (1997-2012)
یہ نسل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں جوان ہوئی۔ ان کے پاس ہر چیز جلدی اور آسانی سے دستیاب ہے، اس لیے یہ لوگ عملی سوچ اور مسائل کو جلد حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
8. Generation Alpha (2013-2025)
یہ نسل جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور اسمارٹ ڈیوائسز کے ساتھ بڑی ہو رہی ہے۔ ان کا ماحول مکمل طور پر ڈیجیٹل ہے، اور یہ نئی چیزیں جلدی سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
9. Generation Beta (2026-2040)
یہ آنے والی نسل ہوگی جو اور بھی جدید ٹیکنالوجیز جیسے ورچوئل رئیلٹی، آگمینٹڈ رئیلٹی، اور مزید جدید آلات کے ساتھ بڑی ہوگی۔ یہ لوگ ٹیکنالوجی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
کمیونیکئشن گیپ کیسے کم کرناہے اس بارے اگلی پوسٹ میں لکھونگا۔ شکریہ
(Part-2)
کمیونیکشن گیپ (پارٹ ٹو)
(پروفیسر محمد عمران حفیظ)
میں نے 2 جنوری 2025 کو نئی صدی کے آغاز پر، نئے سال کے ابتدائی دنوں میں، اس صدی کے سب سے اہم مسئلے "کمیونیکیشن گیپ" پر بات کی۔ میں تہہ دل سے شکرگزار ہوں ان تمام دوستوں اور احباب کا جنہوں نے اس پوسٹ کو پڑھا، سمجھا، اور اس مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں مزید جاننے اور دلچسپی ظاہر کی۔
پچھلی پوسٹ کا لنک یہاں فراہم کر رہا ہوں تاکہ تسلسل برقرار رہے:
اب اسی تناظر میں، مختلف نسلوں اور قریبی رشتوں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ کو کم یا ختم کرنے کے لیے چند اہم تجاویز پیش کر رہا ہوں۔ یہ تجاویز دنیا بھر میں معاشرتی اور ریاستی سطح پر کامیابی سے اپنائی جا چکی ہیں۔
شاید ہمارے معاشرے میں یہ خیالات نئے ہوں، لیکن یاد رکھیں، ہر نئی چیز اور تبدیلی کو اپنانا شروع میں مشکل اور عجیب لگتا ہے۔ تاہم، ہمیں یہ بات کھلے ذہن سے سمجھنی ہوگی کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ دنیا کی رفتار تیز ہے، اور اگر ہم نئی باتوں کو اپنانے میں سستی کریں گے، تو وقت ہمیں پیچھے چھوڑ دے گا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا:
**"تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات"**
کمیونیکیشن گیپ کو کم کرنے کے اقدامات اور سرگرمیاں درج ذیل ہیں۔ ان پر عمل کریں اور زندگی کے مقصد کو حاصل کریں:
1. دوسروں کی بات غور سے سنیں
• جب کوئی بات کرے، تو اسے توجہ سے سنیں اور بیچ میں نہ ٹوکیں۔
• دوسروں کے جذبات اور بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
2. سادہ اور واضح بات کریں
• اپنی بات آسان اور صاف لفظوں میں کریں تاکہ سامنے والا آسانی سے سمجھ سکے۔
• مشکل الفاظ یا گھما پھرا کر بات کرنے سے گریز کریں۔
3. ٹیکنالوجی کا استعمال سکھائیں اور سیکھیں
• بزرگوں کو موبائل، انٹرنیٹ، یا سوشل میڈیا کا استعمال سکھائیں تاکہ وہ نوجوان نسل کے ساتھ جڑ سکیں۔
• نوجوان، بزرگوں کے خطوط اور روایتی طریقے سمجھنے کی کوشش کریں۔
4. مشترکہ وقت گزاریں
• روزانہ یا ہفتہ وار خاندان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں، کھانے پر یا کسی اور وقت۔
• ہر کسی سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھیں اور اپنی بات بھی شیئر کریں۔
5. احترام سے بات کریں
• ہر نسل کے خیالات اور جذبات کا احترام کریں۔
• اختلاف ہو تو بھی نرم لہجے میں بات کریں۔
6. پرانے اور نئے دور کی کہانیاں سنیں
• بزرگ اپنے وقت کی کہانیاں سنائیں، اور نوجوان اپنے تجربات اور ٹیکنالوجی کی باتیں شیئر کریں۔
7. گھریلو سرگرمیاں کریں
• خاندان کے ساتھ کوئی کھیل کھیلیں، مل کر کھانے بنائیں، یا فلم دیکھیں۔
• ایسی سرگرمیاں آپس میں تعلق مضبوط بناتی ہیں۔
8. صبر کریں اور وقت دیں
• ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا وقت دیں۔
• اگر کوئی فوری طور پر نہ سمجھے، تو ناراض نہ ہوں۔
9. تعریف کریں
• دوسروں کی اچھی باتوں اور کاموں کی تعریف کریں۔
• یہ دلوں کو قریب لاتا ہے۔
10. مشترکہ مسائل پر بات کریں
• کوئی ایسا مسئلہ جو سب کے لیے اہم ہو، جیسے بچوں کی تعلیم، خاندانی فلاح، یا صحت پر بات کریں اور حل نکالیں۔
11. ایک دوسرے کو معاف کریں
• اگر کوئی غلطی کرے یا بات سمجھ نہ آئے، تو اسے دل سے معاف کر دیں۔
• چھوٹی باتوں کو بڑا نہ کریں۔
12. سوال کریں اور رائے لیں
• دوسروں کی رائے جاننے کے لیے سوال کریں۔
• یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ان کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔
13. مشترکہ اہداف بنائیں
• خاندان کے لیے کوئی ہدف طے کریں، جیسے گھر کی صفائی، باغبانی، یا کوئی خاص تقریب کا انتظام۔
14. بچوں کو اعتماد دیں
• بچوں کی بات غور سے سنیں تاکہ وہ کھل کر اپنی بات کہہ سکیں۔
• ان کی بات کا مذاق نہ اڑائیں۔
15. سکھانے اور سیکھنے کا جذبہ رکھیں
• ہر نسل کو ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع دیں۔
• اس سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔
سرگرمیاں
کمیونیکیشن گیپ کم کرنے اور خاندان، نسلوں، اور قریبی رشتوں میں تعلقات مضبوط کرنے کے لیے درج ذیل اہم سرگرمیاں کی جا سکتی ہیں:
1. اسلامی تعلیمات کو اپنانا
• قرآن پاک اور سنت رسول ﷺ سے رہنمائی حاصل کریں۔
• اسلام محبت، برداشت، اور اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، جسے خاندان میں لاگو کریں۔
• باجماعت نماز پڑھنے سے آپس میں ملاقات اور بات چیت کا موقع ملتا ہے۔
2. گھر میں اجتماعی قرآن خوانی اور دعا
• خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر قرآن مجید کی تلاوت کریں اور اس کے معنی سمجھیں۔
• مشترکہ دعا کریں تاکہ دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا ہو۔
3. اسلامی تہواروں کو ساتھ مل کر منائیں
• عید الفطر اور عید الاضحی پر مل بیٹھ کر خوشیاں بانٹیں۔
• تہواروں پر خاص کھانے بنائیں اور انہیں مل کر کھائیں۔
4. خدمت خلق اور خیرات
• خاندان کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کی مدد کریں۔
• صدقہ یا زکوٰۃ دینے کے لیے بچوں کو بھی شامل کریں تاکہ وہ اس عمل کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
5. بزرگوں کا احترام اور ان سے مشورہ
• بزرگوں سے ان کے تجربات سنیں اور ان سے زندگی کے مسائل پر مشورہ کریں۔
• ان کی دعائیں اور دعائیں لینا رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔
6. مشترکہ کھانے اور گفتگو
• دن میں کم از کم ایک وقت کا کھانا سب مل کر کھائیں۔
• کھانے کے دوران روزمرہ کی باتیں کریں اور مسائل شیئر کریں۔
7. مل کر عبادات
• رمضان کے مہینے میں سحری، افطاری، اور تراویح کو مل کر کریں۔
• یہ روحانی سرگرمیاں دلوں کو قریب لاتی ہیں۔
8. اسلامی تاریخ اور کہانیاں سنانا
• بچوں اور نوجوانوں کو انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرامؓ، اور اسلامی فتوحات کی کہانیاں سنائیں۔
• یہ سرگرمی نہ صرف تعلیمی ہے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔
9. علم کا تبادلہ
• دینی مسائل پر آپس میں بات کریں، جیسے کہ نماز، روزہ، اور حج کے بارے میں سوالات۔
• اگر کوئی مسئلہ سمجھ نہ آئے تو علماء سے رہنمائی حاصل کریں۔
10. اسلامی اخلاق پر عمل
• نرمی، برداشت، اور درگزر کو اپنی عادت بنائیں۔
• بچوں اور نوجوانوں کو سکھائیں کہ کیسے دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا ہے۔
11. مشترکہ گھریلو سرگرمیاں
• گھر کی صفائی، باغبانی، یا کھانا پکانے میں مل کر حصہ لیں۔
• یہ عمل نہ صرف گھریلو ذمہ داریوں کو بانٹنے میں مدد دیتا ہے بلکہ تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔
12. رشتہ داروں سے ملاقات
• خاندان کے دیگر افراد جیسے دادا، دادی، چچا، ماموں سے ملنے جائیں یا انہیں گھر بلائیں۔
• اسلامی تعلیمات میں صلہ رحمی (رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک) کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
13. بچوں کو دین سکھائیں
• بچوں کو کلمے، نماز، اور مسنون دعائیں یاد کروائیں۔
• انہیں دین کے عملی پہلوؤں، جیسے وضو اور روزے کے فوائد، کے بارے میں سمجھائیں۔
14. مل کر صدقہ جاریہ کے کام کریں
• خاندان کے افراد مل کر کسی مسجد کی تعمیر، پانی کے نلکے لگانے، یا درخت لگانے جیسے کام کریں۔
• یہ کام نہ صرف صدقہ جاریہ ہوگا بلکہ خاندانی اتحاد کی علامت بھی بنے گا۔
15. جمعہ کی اہمیت
• ہر جمعہ کو مل کر نماز پڑھنے کا اہتمام کریں۔
• خطبہ سنیں اور اس پر گفتگو کریں تاکہ دینی شعور بڑھے۔
16. احترام کے ساتھ اختلاف رائے
• اگر کسی بات پر اختلاف ہو تو شائستگی سے بات کریں۔
• غصے اور تلخی سے پرہیز کریں اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں۔
حصہ دوم:
آج کے جدید دور میں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب صرف ڈگریاں حاصل کرنا نہیں بلکہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے واقفیت اور اسے مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ آنے والے وقت میں "تعلیم یافتہ شخص" (Educated Person) کی جگہ "ہم آہنگ شخص" (Compatible Person) کا تصور لے لے گا۔
اگر آپ موجودہ دور کی جدید ٹیکنالوجی، جیسے مصنوعی ذہانت، ڈیٹا اینالیٹکس، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے ناواقف ہیں، تو چاہے آپ کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ہو، آپ کو غیر تعلیم یافتہ سمجھا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ:
1. جدید مہارتوں کا حصول: آنے والے دنوں میں کامیابی کے لیے جدید مہارتوں کو اپنانا ضروری ہوگا، جیسے کوڈنگ، سافٹ ویئر کا استعمال، اور آن لائن وسائل سے استفادہ۔
2. مسلسل سیکھنے کی عادت: ٹیکنالوجی مسلسل بدل رہی ہے، اس لیے سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوگا۔
3. ڈیجیٹل لٹریسی کی اہمیت: کتابی علم کے ساتھ ساتھ، ڈیجیٹل دنیا میں کام کرنے کی اہلیت ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔
4. فکری لچک: جدید دور میں کامیاب ہونے کے لیے نئے نظریات کو اپنانے اور مختلف طریقوں سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت اہم ہوگی۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ مستقبل میں تعلیم یافتہ شخص وہ ہوگا جو اپنے دور کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور اس کا عملی استعمال جانتا ہو۔
کمیونیکشن گیپ کو کم کرنا اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا عین اسلام اور دیگر مذاہب کے مطابق جائز ہے تاکہ تمام الہامی مذاہب خاص کر اسلام کو جدید دور سے ہم آہنگ جانا جا سکے۔اسلام ہر دور میں ایک پریکٹیکل دین ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

اصل ہیرو کون؟