Sunday, June 21, 2020

جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پہ سپریم کورٹ کا حکم :


ریفرنس برخلاف جسٹس قاضی فائز عیسی:

(پروفیسر محمد عمران حفیظ)

اب جبکہ سپریم کورٹ کا اس بارے حکم نامہ جاری ہو چکا ہے لہذا اس پہ رائے دی جا سکتی ہے۔ میں نے بہت سادہ انداز میں معاملےکو لکھنے کی کوشش کی ہے۔

ریفرنس کا پس منظر:

2019 میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کا مطابق صدر پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ایک ریفرنس اعلی عدالتی کونسل کو بھجوایا جسکے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی کے زیر کفالت انکی بیوی اور بچوں کے نام برطانیہ میں 3 جائیدادیں انکی ملکیت ہیں (ثابت شدہ)۔جبکہ جسٹس صاحب نے بطور چیف جسٹس بلوچستان 2009-2014 اور بطورجج سپریم آف پاکستان 2014تا حال آج تک ان جائیدادوں کواپنے یا بیوی کے ٹیکس گوشواروں مین ظاہر نہیں کیا جبکہ بطور پبلک آفس ہولڈر وہ پابند تھے لہذا آئین پاکستان کے آرٹیکل 209-5ب کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب بد عنوانی  (مس کندکٹ) کےمرتکب ہوئے ہیں۔ صدر پاکستان آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کے مطابق اعلی عدالتی کونسل کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ معاملہ کی تحقیقات کرے اور رپورٹ دے۔

(آئین کے مطابق یہ اعلی عدالتی کونسل چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے دو مقدم ترین ججز، ہائی کورٹس کے دو مقدم ترین ججزپر مشتمل ہو گی)

اس صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائزہ عیسی صاحب اور وغیرہ  نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ یہ معاملہ میرے اور میری بیوی کے ٹٰیکس گوشواروں میں دی گئی معلومات میں کمی بیشی ،بے قاعدگی اور  بے ضابطگی کے  متعلق ہے لہذا اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے اعلی عدالتی کونسل ایک غیر متعلقہ فورم ہے اور میرے خلاف اس معاملے کو بطور ایک ریفرنس بھیجنا بد نیتی پہ مبنی فعل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی سپریم کورٹ میں یہ درخواست کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں ہے اس پہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 10معزز جج صاحبان پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔ جس بارے کل مؤرخہ19جون 2020ءکو معزز بینچ نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق 10 میں سے 7 جج صاحب نے یہ رائے دی کہ

 "جسٹس قاضی فائز عیسی کی سپریم کورٹ میں دی گئی یہ درخواست منظور کر لی گئی ہے کہ انکے خلاف  اعلی عدالتی کونسل میں دیا گیا صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں ہے"

مزید ان جج صاحبان نے صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسی پہ لگائے گئے الزامات بارے تحقیقات کے لئے الگ سے 8 احکامات جاری کئے ہیں۔اب یہ تاثر دینا کہ قاضی فائز عیسی صاحب پہ لگے الزامات جھوٹے ہیں اور وہ اس ریفرنس سے بری ہو چکے ہیں اور معاملہ ختم ہو چکا ہے تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ میری رائے میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے  ایف بی آر کوحکم دے کر بہت اچھا اور مناسب فیصلہ دیا ہے۔اگر سپریم کورٹ کا حکم نامہ پڑھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ نے اعلی عدالتی کونسل کی تحقیات میں بھرپور مدد کی ہےاورجن ذمہ داریوں کا  دونوں فریقین کو پابند کیا ہے اور  ٹائم فریم دیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔بادی النظر میں اس حکم نامے کے ذریعے  جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی فیملی کو سخت طریقے سے قابل احتساب بنایا گیا ہے لیکن فورم بدل دیا گیاہے۔ تحقیقات کے بعد  چئیرمین ایف بی آر اپنی رپورٹ اعلی عدالتی کونسل کےچئیرمین (چیف جسٹس آف پاکستان)کو ہی پیش کرے گا جو اس رپورٹ کی بنیاد پہ جسٹس قاضی فائز عیسی بارے مناسب کاروائی کرنے بارے احکامات جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جن 10 جج صاحبان کے بینچ نے جناب جسٹس قاضی فائز عیسی وغیرہ کی پٹیشن پہ سماعت کی ان میں 1:جناب جسٹس عطا بندیال 2: جناب جسٹس مقبول باقر3: منظور احمد ملک4: جناب جسٹس فیصل عرب5: جناب جسٹس مظہرعالم خاں میاں خیل6: جناب جسٹس سجاد علی شاہ7: جناب جسٹس سید منصور علی شاہ8: جناب جسٹس منیب اختر9: جناب جسٹس یحی آفریدی10: جناب جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں۔معزز10 جج صاحبان کے لارجر بنچ میں سے جن تین معزز جج صاحبان نے حکم نامہ میں اختلافی نوٹ لکھا ان میں جناب جسٹس مقبول باقر، جناب جسٹس منصور علی شاہ،جناب جسٹس یحیی آفریدی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جو حکم نامہ جاری ہوا ہے اس کو سادہ الفاظ میں بیان کر رہاہوں۔

  حکم نامہ :

٭سپریم کورٹ کے اس حکم نامہ کے اجراء کے 7دن کے اندر اندر ایف بی آر کا متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو آفیسر انکم ٹیکس آرڈینینس 2001کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسی کی بیوی اور بچوں کو ایک نوٹس جاری کرے گا جس میں ان کی ملکیت میں جو برطانیہ میں  ذیل جو 3جائیدادیں ہیں  

1: No. 40, Oakdale Road, London E11 4DL;

2: No. 90, Adelaide Road, London E10 5NW; and

3: No. 50, Coniston Court, Kendal Street, London W2 2AN

انکی خریداری کی رقم  بارے  مکمل تفصیل(منی ٹریل)، ان کی ذرائع آمدن اور آمدن کی نوعیت بارے تفصیل مانگی جائے گی۔

٭جسٹس قاضی فائز عیسی کی بیوی اور بچے کمشنراِن لینڈ ریونیو آفیسر کی طرف سے نوٹس ملنے کیصورت میں 60 دن کے اندر اندر جواب جمع کروائیں گے جس میں ان جائیدادوں کی ملکیت، خریداری، ذرائع آمدن اور منی ٹرل سمیت ہر قسم کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنا جسٹس قاضی فائز عیسی  صاحب  کی بیوی اور انکے بچوں  کی ذمہ داری ہو گی چاہے وہ دستاویز ات بیرون ملک سے ہی کیوں نا مگوانی پڑیں وہ بھی مہیا کرنا انہی کی ذمہ داری ہو گی (بار ثبوت جسٹس قاضی صاحب کی فیملی پہ) ۔ ٭نوٹس کا جواب 60 دن کے اندر جمع کروانے میں جوابدہ دہندہ کا پاکستان میں موجود نا ہونا  رکاوٹ /بہانہ نہیں مانا جائے گا  اور نا ہی مزید وقت دیا جائے گالہذا جواب ہر صورت دیئے گئے وقت کے اندر مکمل دستاویزی ثبوتوں کیساتھ جمع کروانا ہوگا اور ضرورت پڑنے پہ ذاتی حیثیت میں بھی پیش ہو سکتے ہیں۔٭کمشنر ان لینڈ ریونیو نوٹس جاری کرنے کے بعد 75دنوں کے اندر اندر اپنی تحقیقات مکمل کر کے ایک حکم نامہ جاری کرے گا۔ ٭کمشنر ان لینڈ ریونیوکی طرف سے حکم نامہ جاری ہونے کے 7 دن کے اندر اندرتحقیقات کی مکمل رپورٹ مع ریکارڈ  اعلی عدالتی کونسل کے چئیرمین (چیف جسٹس آف پاکستان) کے سامنے پیش کیا جائے گا جو کہ جسٹس قاضی فائزعیسی کے بارے مناسب حکم، کاروائی یا ہدایت جاری کریں گے۔

درج بالا حکم نامے سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کی درخواست کو مانتے ہوئے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس  خارج کرتے ہوئے  جسٹس قاضی صاحب کو اعلی عدالتی کونسل کی تحقیقات سے مبراء قرار دے دیا گیا ہے لیکن الزام اپنی جگہ موجودہ ہیں اور ان الزامات کی تحقیقات کےلئے اعلی عدالتی کونسل کی بجائے دوسرے ریاستی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو واضح احکامات جاری کردیئے گئے ہیں اور جناب جسٹس قاضی فائز عیسی کی بیوی اور بچوں کو انکے نام برطانیہ میں 3 پراپرٹیز کی بروقت منی ٹریل، ملکیت کی ملکی و غیر ملکی دستاویز مہیا کرنے کا ذمہ دارٹھہرا دیا گیا ہے اگر وہ حکم نامے کے مطابق دئیے گئے وقت میں مطلوبہ دستاویزات مہیا کرتے ہیں یا نہیں کرتے دونوں صورتوں میں کمشنر اپنا حکم نامہ جاری کرے گا اور اس بارے مکمل رپورٹ مع ریکارڈ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو پیش کیا جائے گا۔یہ تقریباً 90 دن کا دورانیہ بنتا ہے۔اس سے قبل یہ معاملہ تقریباً ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے اور محترم جناب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب پٹیشن کی سماعت کے بنچز پہ اعراضات اٹھاتے رہے ہیں۔ اللہ کرے اب یہ معاملہ احسن انداز میں حل ہو جائے اور ان کی بیوی اور بچے  برطانیہ میں 3 جائیدادوں کی خریداری کی اصلی منی ٹریل، رقم کا ذریعہ اور اپنا ذرائع آمدن  درست بتا دیں۔تاکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی مثال کا اضافہ ہو سکے اور اس کیس کے آخر پہ سپریم کورٹ آف پاکستان  جو فیصلہ کرے گی وہ پاکستان کی عدلیہ کے احتساب کا مستقبل طے کرے گا۔




No comments:

Post a Comment

Reko Diq: پاکستان کاخزانہ

  پاکستان کا قرضہ ختم: (محمد عمران حفیظ) ریکوڈک، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کاقصبہ ہے جس میں 13000 مربع کلومیٹرتک تقریباً 6 بلیئن...